کالم نگار۔ افسانہ نگار۔ مضمون نگار اور شاعرہ۔ ۔۔۔تحریم ڈوگر۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
انٹرویو: صاحبزادہ یاسر صابری۔ ۔۔۔۔
03115311991
تحرہم ڈوگر ایک نوجوان مصنفہ، کالم نگار، افسانہ نگار، مضمون نگار اور شاعرہ ہیں
آپ صحافت کے ساتھ بھی منسلک ہیں۔
آپ 2 جولائی 1996 کو پاکستان کے شہر لاہور میں پیدا ہوئیں انہوں نے اپنی ابتدائی تعلیم لاہور سے ہی حاصل کی اور پھر دینی تعلیم سے لگاؤ اور چاہ انہیں وفاق المدارس فیصل آباد لے گئ , وہاں سے انہوں شہادۃ العالیہ جو کہ B A کے مثاوی تعلیم ہےحاصل کی۔
قواعد تجوید سے واقف اور ترجمہ تفسیر کی حافظہ ہیں۔
آپ کا پہلا شعری مجموعہ "نوازش" 2018 میں شائع ہوا، اس کے علاوہ آپ کی دو کتب یکے بعد دیگرے منظر عام پر آئیں ان میں ایک شعری انتخاب "رنگِ سخن" اور دوسرا افسانوی انتخاب "میرے ناخدا" شامل ہے۔
انگریزی انتخاب پہ انہوں نے "ریز آف ہوپ" کتاب پہ کام کیا اور اک بہترین کتاب قارئین کے لیے مکمل کی . مکافاتِ عمل پہ مشتمل انہوں نے پاداش کے نام سے افسانوی مجموعہ مرتب کیا جس پہ انہیں بانو قدسیہ ایوارڈ سے نوازا گیا . حال ہی میں آپ نے دل فگار کتاب شہزاد ڈوگر کے ساتھ مل کے مکمل کی ۔آپ بہت سے شعری و افسانوی مقابلہ جات میں فاتحہ رہ چکی ہیں, بہت سی کتب میں بطور مبصرہ لکھ چکی ہیں .
آپ کا شعری مجموعہ نویدِ بہار اور اردو مضامین پہ انتخاب غزوہ احد زیر اشاعت ہیں.
آپ ایک عرصہ گوہر نایاب ڈائجست کے ساتھ بطور مدیر کام کرتی رہیں اور کشمیر رائٹرز فورم لاہور کی بھی ممبر رہیں۔ .
تحریم ڈوگر کو بہترین لکھاری اور ان کی شاندار ادبی خدمات کے اعتراف میں مختلف تنظیموں کی جانب سے اسناد اور ایوارڈز سے نوازا جا چکا ہے۔
آپ ایک ادبی تنظیم "تحریم رائٹرز فورم" لاہور کی بانی و صدر ہیں.آپ کے انٹرویو سے پہلے آپ کی نعت کے چند اشعار ملاحظہ کیجئے۔
یہ عطا ہے نبی کی عطا دوستو
مصطفی کے گدا کو کمی کچھ نہیں
میں نے دیکھا ہے نقش_کف_پا سنو
چاند بھی کچھ نہیں چاندنی کچھ نہیں
ان کا تربت میں ہے جو گزر جان لو
وحشتیں کچھ نہیں تیرگی کچھ نہیں
اب مدینے خدارا مجھے لے چلو
ان کے در کے بنا زندگی کچھ نہیں
نعتِ پاکِ نبی یہ جلا دے گئی
ورنہ تحریم کی شاعری کچھ نہیں۔سوال: لکھنے کا آغاز نظم سے ہوا یا نثر سے!
جواب ۔نثر سے
سوال: نظم زیادہ کہی یا غزل۔
جواب۔نظم
سوال۔کبھی ایسا ہوا ہے کہ آپ کے پاس لکھنے کے لیے الفاظ کا ذخیرہ بھی ہو اور آپ لکھ نہ سکی ہوں؟
جواب . بہت دفعہ ایسا ہوا , بلکہ اک عرصہ سے مسلسل یہی کیفیت ہے.
سوال۔ لاہور کی ادبی سرگرمیوں کے حوالے سے کیا کہیں گی؟
جواب. کسی بھی سرگرمی کے حوالے سے تو کچھ نہیں کہہ سکتی ہاں ان سرگرمیوں کے منتظمین کے بارے میں کہوں گی کہ انہیں چاہیے صرف اپنی رینک بڑھانے کے لیے دھڑا دھڑ سرٹیفیکیٹ اور ایوارڈ نہ بانٹیں بلکہ معیار کو بھی جانچیں اور پرکھیں پھر ان سرگرمیوں کے نتائج نکالیں۔
سوال۔ آپ نے تحریم رائٹر فورم کب قائم کی بنیاد اور یہ بھی بتا دیں اس تنظم کے مقاصد کیا ہیں؟
جواب۔ 2020میں تحریم رائٹر فورم قائم کی۔اس تنظیم کے مقاصد یہ ہیں کہ ہر لکھاری صاحب کتاب ہو.ہر نئے لکھاری کو ایک ادبی پلیٹ فارم مہیا کیا جا سکے.
نئے لکھنے والوں کی ممکن حد تک اصلاح کی جا سکے اور اور ہر طرح سے ادب کو فروغ دیا جا سکے.
سوال۔ آپ نے زیادہ تر کس موضع پر لکھا ہے؟
جواب۔ معاشرتی موضوعات پہ
سوال۔انگریزی میں ناول پاپولر صنف ادب کیوں ہے؟
کیونکہ دنیا بھر میں انگریزی ناول کو ایک الگ مقام حاصل ہے , مغرب کے روایتی ادب میں جین آسٹن کا نام لیں یا جدید ادب کی ہر دلعزیز ورجینا وولف کا , ہر لحاظ سے مغرب و مشرق کے لکھاریوں نے انگریزی ادب میں اپنا الگ مقام بنایا اور یہی اس کے پاپولر ہونے کی وجہ ہے۔
سوال۔آپ ادب کو کمائی کا ذریعہ بنانے کے حق میں ہیں اگر ہیں تو کیوں ؟
کسی حد تک ہوں بھی کیونکہ ادیب اپنی زندگی کا ایک حصہ ادب کے لیے وقف کرتا ہے تو اسے اس سے اتنی مالی معاونت تو ملنی چاہیے جس سے اس کی قلم اور کتاب کا خرچ تو پورا ہو سکے .
سوال۔کیا ایوارڈزحقیقی لکھنے والوں تک پہنچ رہے ہیں؟
جواب۔ یہ انتہائی افسوس کی بات ہے کہ ہمارے ملک میں حق حقدار تک نہیں پہنچتا تو جہاں کا اصول ہی تعلق داری نبھانا ہو وہاں ایوارڈز کیا محض شیلڈز بھی حقیقی لکھنے والوں تک نہیں پہنچتیں۔
سوال۔ کیا لکھنے والوں کو کسی اعزاز کی ضرورت ہوتی ہے؟
جواب۔ جی بالکل , جیسے کسی فنکار کو اپنا فن نکھارنے کے لیے داد کی ضرورت ہوتی ہے اسی طرح اک لکھاری کو حوصلہ افزائی کے لیے اعزاز کی ضرورت ہوتی ہے۔
سوال۔آپ کی ادبی صلاحیتوں کو اجاگر کرنے میں کس نے زیادہ اہم کردار ادا کیا آپ کے والدین نے یا اساتذہ نے؟
جواب۔ میری ادبی صلاحیتوں کو اجاگر کرنے میں میری والدہ نے میرا بھر پور ساتھ دیا اور پھر الحمدللہ میرے شوہر نے ہر جگہ پہ ہر حوالے میرا ساتھ دیا اور آج اگر چند لوگ مجھے جانتے ہیں تو میری والدہ کی دعاؤں اور شوہر کے ساتھ کی بدولت ہی جانتے ہیں.
سوال۔ڈاکٹر جمیل جالبی نے ٢٠٠۵ میں اپنے ایک انٹرویو میں ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا تھاکہ ہمارا ادیب اور تخلیقی ذہن بے سمتی اور بے جہتی کا شکار ہو چکا ہے ؟
جواب۔ ڈاکٹر جمیل جالبی صاحب ۲۰۰۵ میں ان لوگوں سے تعلق میں ہوں گے جو بے سمتی اور بے جہتی ذہنیت کے شکار ہوں لیکن میں اس بات کی قائل نہیں ہوں ہمارا آج کا ادیب بھی معاشرتی معاملات کو بہت باریک بینی سے دیکھتا اور پرکھتا ہے , ہر طرح سے اچھائی پھیلانے اور اصلاح کا بیج بونے کی کوشش کرتا ہے لیکن افسوس یہ کہ ہمارے قاری بے سمتی اور بے جہتی کا شکار ہو چکے ہیں .
No comments:
Post a Comment