Monday, March 11, 2024

ثوبیہ راجپوت ( افسانہ نگار، شاعرہ ، کالمسٹ , صحافی ) انٹرویو : صاحب زادہ یاسر صابری

 






۔۔۔۔۔۔۔۔ثوبیہ راجپوت۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

افسانہ نگار۔تبصرہ نگار کالمسٹ صحافی اردو اور پنجابی زبان کی شاعرہ

انٹرویو: صاحبزادہ یاسر صابری

03115311991


پاکستان کی نئی نسل کی اہلِ قلم خواتین کی کھیپ میں ثوبیہ راجپوت کا نام جانا پہچانا ہے۔ان کا تعلق شہرِ اقبال سیالکوٹ سے ہے۔اُن کے افسانوں کا مجموعہ وجودِ شب جون 2023ء میں زیورِطباعت سے آراستہ ہوا۔افسانوں کے علاوہ اردو اور پنجابی ہر دو زبانوں میں شاعری بھی کرتی ہیں۔ ان کا کلام کئی اخبارات میں شائع ہوتا رہتا ہے۔محکمہ اطلاعات وثقافت سے ایوارڈ بھی حاصل کر چکی ہیں۔کاروانِ قلم ویلفئیر سوسائٹی کے نام سے ایک ادبی تنظیم بھی چلارہی ہیں جس کے تحت بہت سے نٸے لکھاریوں کو منظرِ عام پر لا چکی ہیں۔ان کی کتاب وجودِشب جہاں بہت سے ایوارڈ حاصل کرچکی ہے وہیں پر اس کتاب کو آل پاکستان ویلفئیر ایسوسی ایشن (اپووا)سے بہترین کتاب کا ایوارڈ بھی مل چکا ہے ۔وجودِشب کی ورق گردانی کے بعد بہت سی نامور شحصیات نے اس کتاب پر تبصرہ کیا جن میں سرِ فہرست حسیب پاشا المعروف ہامون جادوگر شامل ہیں۔ ان سے سوالات و جوابات کا سلسلہ شروع کرنے سے پہلے ان کی ایک نعتِ رَسُولِ مقبول ﷺ ملاحظہ کیجئے: 

جہاں میرے آقاﷺ  کا روضہ بنا ہے

مری آنکھ میں وہ مدینہ بسا ہے 


صحابہ  بھی ہیں ساکِنانِ مدینہ

ہے قرآن میں اُن پہ راضی خُدا ہے


وہ شیرِ خدا جس کو بابُ المدینہ

رَسُولِ خُدا نے ہمیشہ کہا ہے


نصیب اُن کے در کی گداٸی ہو مجھ کو

مرا دل اسی آرزو میں لگا ہے


وہ صَلِّ علٰی کی صداٶں کا اُٹھنا

معطر مدینے کی ساری فِضا ہے


خُدامجھ سے راضی تو کس بات کا غم

زمانے کی پرواہ کیا گر خفا ہے


وہ  خَتمِ  رُسُل  بن کے  آٸے ہیں  ثوبی

 اُنھی کی  اِطَاعَت  میں سب کی بقا ہے

سوال۔ آپ کا یوم پیدائش؟

جواب۔ اس وادیِ پُرخار میں ہماری  آمد بہار کے موسم میں ہوئی تھی یعنی کہ 7 اپریل۔ 

سوال۔ آپ نے تعلیم کہاں سے حاصل کی؟

جواب:ابتداٸی تعلیم گورنمنٹ گرلز ہائی سکول کوٹلی بہرام سے کیا۔ایف اے دارالعلوم میراں بخش،دارالعلوم نورالقرآن سے عالمہ فاضلہ کا کورس مکمل کیا اور باقی پڑھنے کا عمل تو ابھی تک جاری ہے۔کتابیں پڑھنے کا جنون کی حدتک شوق ہے اور اسی شوق کے پیشِ نظر ہر کتاب کا مصنف میرا اُستاد ہے کیونکہ ایک اچھی کتاب سے کوئی نہ کوئی خوبصورت بات مل ہی جاتی ہے اس لیے میں مصنف کو اپنا اُستاد اور کتاب کو بہترین درس گاہ سمجھتی ہوں۔

سوال: آپ کے لکھنے کا آغاز کیسے ہوا؟

جواب۔ لکھنے کا شوق تو بچپن سے ہی تھا بچوں کے رسائل و میگزین بہت شوق سے پڑھا کرتی تھی جب میں پانچویں کلاس میں تھی تو ایک لوکل میگزین میں ایک چھوٹی سی تحریر بھیجی جوکہ شائع  ہوگئی پھر اس کے بعد گاہے بگاہے سلسلہ جاری رہا لیکن پچھلے دو سال سے باقاعدگی سے لکھ رہی ہوں۔

سوال: نظم زیادہ لکھتی ہیں یا نہ نثر؟ 

جواب۔شاعری و نثر میں یکساں دلچسپی ہے۔اگرایک نظم لکھی ہے تو نثری تبصرہ یاکوٸی مضمون بھی لگ جاتاہے۔

سوال۔ کاروان قلم رائٹر فورم سیالکوٹ سے کب وابستہ ہوئیں؟ 

جواب۔ 7 اکتوبر بروز ہفتہ 2023ء کو باقاعدہ کاروانِ قلم رائٹر فورم کا آغاز کیاگیا۔

سوال:افسانہ اور ناول لکھنے کے لیے کن لوازمات کا ہونا ضروری ہے؟

جواب: پلاٹ،وسیع تخیل،مشاہدہِ کاٸنات اورماشرتی پہلوٶں پر غوروخوض۔

سوال:آپ اُردو اور پنجابی ہر دو زبانوں میں شاعری کرتی ہیں یہ بتا دیں کہ آپ کو اپنی اردو شاعری زیادہ عزیز ہے یا پنجابی شاعری؟ 

جواب۔ اردو ہماری قومی زبان ہونے کے ناتے ہمیں بہت عزیز ہےمگرپنجابی ثقافت میں گُندھے ہوٸے اپنی ماں بولی پہ فخر کرنے والے لوگ ہیں۔پنجابی زبان دی گل ای وکھری اے۔پنجابی ساڈی ماں بولی اے تے ماں بولی ہون دے ناتے مینوں پنجابی نال عشق جیہا اے۔ میں کوشش کرنی آں کہ جناں ہوسکے پنجابی دے فروغ لئی کم کیتا جاوے پنجابی بوہت خوبصورت تے دلکش زبان اے۔

سوال۔ شاعری میں کس سے رہنمائی حاصل کی؟ 

جواب۔ سیالکوٹ کے نامور مصنف شاعر جناب اُستادِ محترم ڈاکٹر محمد الیاس عاجز صاحب اللہ پاک اُن کے علم وفضل میں برکت دے کہ ان کی کوشش سے مجھ ناچیز کا نام بھی شاعرات میں شامل ہوگیا۔ میں نے ایسے لوگ بہت کم دیکھے ہیں کہ اگر ان کے پاس کوئی ہنر، فن یاعلم ہے اور وہ دوسروں کو بغیر لالچ کے سکھائیں یہ صفت اللہ پاک نے عاجز صاحب میں کوٹ کوٹ کے بھری ہے خدا اُن کے عزت ومرتبے میں مزید اضافہ فرماٸے۔

سوال: کیا آپ سمجھتی ہیں کہ آپ کی تحریروں میں معاشرے کے دکھ درد کا اظہار ہے یا نہیں؟

جواب۔ جی بالکل میری تحریریں مکمل طور پر معاشرتی پہلوؤں کا احاطہ کرتی ہیں میرا افسانوی مجموعہ وجودِ شب اپنے اندر ہرقسم کے معاشرتی کردار اور کہانیاں سمیٹے ہوٸے ہے۔

سوال۔ آپ کے پسندیدہ لکھاری؟

جواب۔ احمد ندیم قاسمی اور سعادت حسن منٹو۔

سوال۔ آپ کس سے متاثر ہیں؟

جواب۔ ہر اُس شحص سے جس سے کچھ سیکھنے کو ملے۔

سوال: پلاٹ ذہن میں آنے کے بعد کس وقت لکھتی ہیں؟

جواب: فوراً لکھنے کی کوشش کرتی ہوں۔

سوال۔ شاعرات کو ادبی بابے صدارت کے لیے برداشت نہیں کرتے کئی شاعرات نے اپنی تنظیمیں بنا کر اپنی صدارت میں عالمی مشاعروں کا اہتمام شروع کر دیا ہے؟

جواب۔ جی بالکل ایسا ہی دیکھنے میں آرہا ہے چلیں جی اگر جگہ نہ ملے تو پھر ایسے ہی سہی۔ ہر کسی کو اپنا شوق پورا کرنے کا حق ہے اگر ایک راستہ دشوار ہے دوسرا آسان رستہ تلاش کرلینا چاہیے۔

سوال۔ ہر مرد عالی ظرف نہیں ہوتا کچھ کم ظرف ہیں جو آج بھی اپنے رب کی طرف سے بنائے گئے آسمانی رشتے کی ناقدری کرتے ہیں۔ 

جواب۔ جی بالکل صحیح کہا ہمارا معاشرہ ہر قسم کے کرداروں سے بھرا پڑا ہے کہیں بے قدرے تو کہیں قدر دان بھی موجود ہیں۔ایسے مرد جو اپنے آسمانی رشتے کی قدر نہیں کرتے دراصل وہ دوسرے سے زیادہ خود کو ذلیل کرتے ہیں۔

اپنے ساتھ مخلص رشتوں کی بے قدری کرنے والے دراصل اپنی ذات کی بے قدری کر رہے ہوتے ہیں۔ایسے مردوزن کبھی بھی ایک پرسکون ذہنی طور پر آسودہ زندگی بسر نہیں کرسکتے۔

سوال۔آپ کی اپنی پسندیدہ شاعری؟

جواب۔ اپنی شاعری ہر کسی کو عزیز ہوتی ہے: 

کہنے میں یہ عار نہیں  ہے

تو  بھی  اپنا یار  نہیں  ہے


بغض  بھرا  ہے   سینہ  تیرا

دشمن ہے غم خوار نہیں ہے 


قول اقرار ہیں جھوٹے سارے

لب  پر  بھی انکار نہیں  ہے


چہروں سے میں دیکھ رہی ہوں

کوٸی بھی بیدار نہیں ہے


سارے  بیوپاری  آ بیٹھے  ہیں

عشق  ہے یہ  بازار نہیں  ہے


ساقی جانب  دار  ہے  نکلا

ہوش میں بھی  میخوار نہیں ہے


خستہ  ہے  بنیاد وطن کی

زیرک اب معمار نہیں ہے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


 پنجابی غزل

اونھے   وی  اعتبار   نٸیں   کیتا

لوکاں   کیتا     یار   نٸیں   کیتا


دل  وچ   آس  ملن  دی  لے  کے

دِل   اپنا    بیمار    نٸیں    کیتا


پھٹ   کلیجے  کھا   بیٹھا   اے

مَیں  تے  کوٸی  وار  نٸیں  کیتا


اکھاں   نال  او   کر  لیندا   اے

جیہڑا   کم   تلوار    نٸیں  کیتا

 

بھریا     میلہ    چھڈنا    چنگا

پردل کوئی  بیزار  نٸیں  کرنا


ہس دا  ریہندا  اے  نِمَّاں  نِمَّاں

پر اونے   اقرار   نٸیں  کیتا


میچ  کے  اکھاں   دل  دتا  اے

لوکاں وانگ  بیوپار نٸیں  کیتا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

No comments:

Post a Comment