Saturday, March 9, 2024

فرح علوی ( شاعرہ و افسانہ نگار ) انٹرویو : صاحب زادہ یاسر صابری

 





فرح علوی:افسانہ نگار اور شاعرہ

انٹرویو: صاحبزادہ یاسر صابری

03115311991


آج جس ادبی شخصیت کا انٹرویو آپ مطالع کریں گے اس ادبی شخصیت کا نام فرح علوی ہے جو ضلع پاکپتن کے نواحی گاوں چاہ حکیم علی محمد میں 15 اکتوبر 2005 ء کو پیدا ہوئیں۔اس ضلع میں الله کے مشہور ومعروف ولی میری مراد حضرت بابا فرید الدین مسعودگنج شکرسے یےکا دربار موجود یے جہاں پر ہر وقت لوگوں کا ہجوم لگا رہتا ہے یہاں دور دراز علاقوں سے لوگ آتے ہیں۔راقم نے بھی 28 جولائ 2023ءکو دربار شریف حاضری دی۔فرح علوی سے ہونے والی تفصیلی گفت گو ذیل میں پیش کی جا رہی ہے۔

سوال: آپ نے کہانیاں لکھنے کا آغاز کب اورکیوں کیا ؟

جواب: لکھنے کا آغاز میں نے بچپن سے ہی کر دیا تھا ، جہاں تک بات لفظ" کیوں"کی ہے تو میں بچپن سے ہی خوددار بننا ضروری سمجھتی تھی۔

سوال: کہانیوں کے علاوہ آپ نثری شاعری بھی کرتی ہیں ۔ شاعری میں باقاعدہ طور پر آپ نے کس سے اصلاح لی ؟

جواب:اصل میں جس طرح میں نثر نگاری کو وقت دیتی ہوں اس طرح شاعری کو وقت نہیں دیتی ۔ کبھی کبھی دل کرتا ہے اور کیفیت ہوتی ہے تو شاعری بھی کر لیتی ہوں اور جہاں تک بات ہے شاعری کی اصلاح کی تو ایک دو لوگوں سے بات کرنے کی کوشش کی ، لیکن وہ تو جیسے کوہ ہمالیہ کی چوٹی پر چڑھے بیٹھے تھے ۔ سوائے حوصلہ شکنی کے کچھ بھی نہیں کیا۔

سوال: آپ اپنی کہانیوں میں معاشرتی حقائق کو اجاگر کرنے میں کس حد تک کامیاب ہوئیں ؟

جواب: کامیابی کی جانب تو ابھی قدم بڑھے ہیں ۔ ابھی بہت سارے محاز سر کرنے باقی ہیں ۔ کامیابی اصل میں وہ ہو گی ، جب سارے گاؤں کے بچے میرے قدم سے قدم ملا کر چلیں گے انشاءاللہ العزیز

سوال: آئندہ نسلوں کی آبیاری کرنے کے لئے کس قسم کے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے ؟

جواب: ہمیں ہر طرح سے عملی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے ۔ بچوں کے متعلق عدم برداشت کی شکایت ہے تو سب سے پہلے بڑوں کو نرمی اور صلہ رحمی کا مظاہرہ کرنے کی ضرورت ہے ۔ اگر کتاب سے دوری کی شکایت ہے تو بڑے موبائل کی جگہ اپنے ہاتھوں میں کتاب پکڑیں ۔ آج کل کے بچے بڑوں کو دیکھ کر چیختے چلاتے ہیں تو اس کے لئے بڑوں کو اپنی آواز نیچی رکھنی چاہئے ۔ ہاں البتہ اپنی آواز وہاں بلند کریں ، جہاں نا انصافی ہو رہی ہو ، جہاں معاشرے کی بقا کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہو اور جہاں مظلوم کی آہ و بکا سننے والا کوئی نہ ہو ۔ اگر ہمیں زندہ رہنا ہے تو اس کے لئے عوامل انتہائی ضروری ہیں۔

ںسوال: آپ کی اب تک کتنی کتابیں شائع ہوچکی ہیں اور ان کے نام ؟

جواب: میری ابھی تک ایک کتاب شائع ہوئ ہےجس کا عنوان ہے"بانس کی باڑ"۔

سوال: نثر نگاری میں آپ کس سے زیادہ متاثر ہیں ؟

جواب: ویسے تو میں نے اچھے سے اچھے مصنفین کو پڑھا ہے ، لیکن جس طرح امجد ثاقب صاحب کی تصانیف نے مجھے اپنے حصار میں لیا ہے وہ خود میں بھی بتانے سے قاصر ہوں۔

سوال: پاکستان میں بڑے کہانی نویس ؟

جواب: ایم الیاس ، ایم اے راحت ، محمود احمد مودی ، چوہدری تنویر سرور صاحب ، نذیر انبالوی صاحب۔

سوال: ادب ہمارے  معاشرے میں رونما ہونے والی تبدیلیوں میں اپنا حصہ کس طرح ڈالتا ہے ؟

جواب: ویسے آج کل جتنے زیادہ وسائل ہیں اتنے زیادہ مسائل بھی ہیں ۔ سماجی خدمات سر انجام دینے کے لئے بہت سارے فلاحی ادارے قائم ہیں ، لیکن پھر بھی انتشار اور بد امنی کیوں ہے ، کیونکہ ہم میں مقابلہ بازی بہت زیادہ ہے استطاعت سے بڑھ کر خواہشات ہیں ، جن کے پورا نہ ہونے کی وجہ سے ہم احساس کمتری میں مبتلا ہو جاتے ہیں ۔ ہمیں اس مقابلے بازی میں آ کر اپنی خواہشات پوری نہیں کرنی بلکہ بڑے مقاصد کے لئے اپنے آپ کو وقف کرنا ہے ۔ ہمیں فیشن کے حصار میں لپٹی یونیورسٹیز نہیں چاہئیں بلکہ ایسے ادارے قائم کرنے ہیں جہاں سے ہمارے نوجوان خودداری کا لباس پہن کر نکلیں

سوال: آج کا ادیب اپنے منصب سے آگاہ نہیں ہے ، معاشرے کے درد کو محسوس نہیں کرتا اس بارے میں آپ کا کیا خیال ہے ؟

جواب:خود نمائی ۔۔۔۔۔۔۔۔

دیکھیں قلم دوسرا جہاد ہے اور جہاد صرف اللّٰہ تعالیٰ کی رضا کے لیے کیا جاتا ہے ، جس میں انسانیت کی فلاح ہو اور جب اللّٰہ تعالیٰ کے لیے کۓ گئے عمل میں دکھاوا آجاۓ تو وہ ریاکاری بن جاتا ہے اور جو ریاکاری کرتا ہے وہ لوگوں میں اپنا آپ منوانے کی کوشش کرتا ہے اور یہ کوشش بے سود ہے ۔ اسلئے ہمیں اپنے قلم کو جہاد سمجھ کر اور معاشرے کی فلاح و بہبود کے لئے استعمال کرنے کی ضرورت ہے

سوال: تنقید سننے کے بعد آپ کا رویہ کیسا ہوتا ہے ؟

جواب: یہ تو تنقید کرنے والوں کے لہجے پر منحصر ہے ۔ اگر تو تنقید برائے تنقید ہے تو خاموشی اور اگر تنقید برائے اصلاح ہے تو خندہ پیشانی سے اس کی بات کرتی ہوں ، کیونکہ انسان ساری زندگی سیکھتا ہے اور اس کے سیکھنے کا عمل کبھی رکنا بھی نہیں چاہئیے۔

سوال: آپ کو اپنی کتاب شائع کروانے کے لئے کتنی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ؟

جواب: بلاشبہ ہمیں منزل پر پہنچنے سے پہلے بہت سارے محاز سر کرنے ہوتے ہیں ۔ مجھے بھی مالی طور پر کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا وسائل کی عدم دستیابی سمیت بہت ساری مشکلات تھیں جن کا خندہ پیشانی سے استقبال کیا اور اپنی کتاب کی اشاعت تک پہنچی ، لیکن یہ ابھی منزل نہیں ہے بلکہ یہ منزل کی جانب پہلا قدم ہے۔  میرا جو خواب ہے کہ اپنے گاؤں میں موجود بچوں کو اکھٹا کر کے ایک ادبی قبیلہ بناؤں جس میں سب امن و سکون سے رہیں۔

سوال: قارئین کے لئے اپنا تازہ کلام عنائت فرمائیں؟ 

جواب:تازہ کلام پیش خدمت ہے: 

وہاں دیکھ جہاں عرش ہےاسے دار نہ سمجھ

کڑوا ہے سچ پی لے اسے آزار نہ سمجھ

بن کر تماش بین سب آتے ہیں دکھ بٹانے

ان فتنہ گروں کو اپنا غم خوار نہ سمجھ

تہذیب کے لبادے میں شیطان ہیں چھپے

عریاں اس تہذیب کو صاحبِ کردار نہ سمجھ

اس دشمن کی دوستی ہے سازش کا پیش خیمہ 

اس بد خواہ کو اپنا طرف دار نہ سمجھ

جو جل رہی ہے سامنے بستی غریب کی

اس آگ کو تو روشنی کے آثار نہ سمجھ

مجھ سے ہے خوف کیسا اے شہرِ خدا تجھے

میرے قلم کو تو تلوار نہ سمجھ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

No comments:

Post a Comment