پاکستانی کی ٹھنڈی ہوائیں
خالد غورغشتی
المستدرک للحاکم میں روایت ہے حضرت علی المرتضی شیر خدا کرم اللہ وجہ الکریم فرماتے ہیں: سب سے بہترین ہوائیں ہندوستان کی ہیں۔
اسی روایت کو موضوع سخن بنا کر ڈاکٹر علامہ اقبال علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:
میر عرب کو آئی تھی ٹھنڈی ہوا جہاں سے
میرا وہی وطن ہے، میرا وہی وطن ہے
واصف علی واصف نام ور ادبی شخصیت کا نام ہے۔ انہوں نے اسی روایت کو موضوع سخن بنا کر کہا تھا کہ جب اتنی جلیل القدر ہستی نے اس سر زمین کے بارے میں اس قدر حوصلہ افزا بات کی ہے تو ضرور کوئی وجہ ہوگی۔ اسی روایت کو بنیاد بنا آپ پاکستان کومقدس اولیاء کی سر زمین قرار دیتے ہیں آپ مزید فرماتے ہیں کہ یہاں ہر طرف اللہ کی عطاء سے قدرتی نور ہی نور پھوٹ رہا ہے۔
برصغیر کی تاریخ پڑھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہاں صدیوں سے صوفیاء کرام کی آمد اور تبلیغ سے لوگ جوق در جوق حلقہ بہ اسلام ہوئے۔
اگر تاریخی تناظر میں باریک بینی سے جھانک کر دیکھا جائے تو برصغیر پاک وہند کے تمام اولیاء کرام نے پاکستان بننے کےلیے راہیں ہموار کیں اور وہ سب میر عرب کی ٹھنڈی ٹھنڈی مہکتی ہواؤں کے فیض یافتہ تھے۔ چنانچہ آج بھی دن رات جگہ جگہ صوفیاء کرام و اولیاء کرام کے مزارات پاکستان پر نور کی کرنیں بکھیر رہے ہیں۔
تاریخ اسلام کی کتب میں موجود ہے کہ سید عبدالطیف قادری کاظمی موسوی علیہ الرحمہ نے ایک دفعہ فرمایا تھا کہ اسلام آباد ہمارا شہر ہے اور ایک دن یہ عظیم ترین اسلامی مملکت کا مرکز بنے گا۔ چنانچہ آپ کے یہ الفاظ 241 برس بعد پورے ہوئے اور اب اسلام آباد پاکستان کا مرکز ومحور ہے۔
واصف علی واصف جو کہ ایک درویش صفت انسان تھے اکثر فرمایا کرتے تھے۔ برصغیر میں پھیلے چاروں سمت کثیر اولیاء کرام کے مزار درحقیقت وہ نورانی راستے ہیں۔ جن کے نور کی شعاعیں مدینہ کی پھوٹتی ہیں۔
آپ اپنی کتاب دل دریا سمندر صفحہ 20 پر لکھتے ہیں:
صاحبان حال کے سلسلے میں قائداعظم علیہ الرحمہ کی مثال سب سے اہم ہے، کیوں کہ وہ صداقت و استقامت کا عظیم پیکر تھے؛ وہ قائداعظم بننے کےلیے کوششیں نہیں کررہا تھا۔ بلکہ وہ مسلمانوں کی خدمت کے جذبے سے سرشار تھا۔ اس کے خلوص کو فطرت نے قبول کرلیا اور اسے صاحب حال بنادیا ورنہ فتوے اس کے خلاف تھے لیکن فطرت اور حقیقت اس کے ساتھ تھی۔
No comments:
Post a Comment