استاد نے ایک طالب علم کی سرزنش کرتے ہوئے پوچھا: تم گھر سے اپنا سبق کیوں نہیں لکھ کر لائے؟
طالب علم نے اطمینان سے اپنے استاد کو جواب دیا: میں نے کتاب میں جو کچھ پڑھا اس پر مجھے یقین نہیں آیا، اس لئے میں نے سبق لکھنے کا تردد نہیں کیا۔
استاد نے پھر پوچھا: یہ کیا بات ہوئی؟ تمھیں کتاب میں لکھے ہوئے پر یقین کیوں نہیں آیا؟
طالب علم نے جواب دیا: کیونکہ میں نے کتاب میں جو کچھ لکھا ہوا دیکھا ہے، اپنے اردگرد اس کی حقیقت تلاش نہیں کرسکا۔
استاد نے کہا: تمھاری بات کا کیا مطلب ہے؟
طالب علم نے جواب دیا: کتاب میں لکھا ہے کہ میرا ملک ایک امیر اور خوشحال ملک ہے۔
لیکن ہمارا گھر مٹی سے بنا ہے۔ میرے کپڑے، میرا بستہ، میری فیس، میری کتابیں حتیٰ کہ اس اسکول کے اخراجات پورے کرنے کے لئے فنڈ بھی خیراتی اداروں کی طرف سے مہیا کیے جاتے ہیں۔
اور کتاب میں لکھا ہے کہ میرا ملک تیل اور گیس جیسی دولت سے مالا مال ملک ہے۔
لیکن ہمارے گھر کھانا پکانے کے لئے نہ گیس ہے اور نہ تیل، میری والدہ اب بھی لکڑیوں پر کھانا پکاتی ہیں۔
اور کتاب میں لکھا ہے کہ میرا ملک خیر، امن اور سلامتی کا علمبردار ہے۔
لیکن میں نے آج تک خیر کی خبر نہیں سنی، امن اور سلامتی کو عملاً کتاب سے باہر نہیں دیکھا۔
اور کتاب میں لکھا ہے کہ، ’’میرا ملک بہادری اور انسانی تہذیب کا گہوارہ ہے۔‘‘ مگر میرے ذہن میں ایک سوال گھوم رہا ہے کہ میرا ملک ابھی تک "گہوارہ" میں کیوں ہے، جب کہ دوسرے ہم سے آگے بڑھ گئے ہیں؟
اسی طرح کتاب میں لکھا ہے کہ ملک میں بسنے والے تمام شہری حقوق اور فرائض میں برابر ہیں۔
لیکن میں بحیثیت انسان یا اس ملک کا شہری ہونے کے ناطے ابھی تک اپنے بنیادی حقوق سے محروم ہوں۔
اے میرے محترم استاد، میں نے جو کچھ پڑھا اس پر مجھے یقین ہی نہیں آیا اور میں خود سے جھوٹ بولنا پسند نہیں کرتا، اس لئے میں نے اپنا سبق نہیں لکھا۔
نویسندہ: مصطفى صادق الرافعي
مترجم:✍️ توقیر بُھملہ✍️
انتخاب و ترسیل: سلیم خان
No comments:
Post a Comment