میڈا عشق وی توں میڈا یار وی توں
پٹھانے خان
9 مارچ 2000 یوم وفات
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آغا نیاز مگسی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سرائیکی زبان کے ممتاز لوک گلوکار غلام محمد المعروف پٹھانے خان 1926 میں کوٹ ادو ضلع مظفر گڑھ کی بستی" تمبو والا " میں خمیسہ خان کے گھر میں پیدا ہوئے ۔ وہ ایک صوفی منش اور صوفی گائک تھے جنہوں نے صوفی شعراء حضرت بلہے شاہ ، شاہ حسین، خواجہ غلام فرید اور پیر مہر علی شاہ و دیگر کے عارفانہ کلام میٹھی اور پر سوز آواز میں گا کر خوب شہرت حاصل کی ۔ ان کو خوب صورت گائیکی کے اعتراف میں 1979 میں صدر پاکستان جنرل محمد ضیاء الحق کی جانب سے صدراتی ایوارڈ سے نوازا گیا۔ کہتے ہیں پٹھانے خان کے باپ نے جب تیسری شادی کی تو ماں واپس اپنے میکے آ گئی۔ اب ماں تندور پر روٹیاں لگاتی اور پٹھانے خان سارا دن لکڑیاں چنتا۔ یہی گزر بسر کا واحد ذریعہ تھا۔ دکھا ہوا دل بابا غلام فرید رح کی کافیاں پڑھنے لگا۔ آواز میں وہ سوز کہ پورے برصغیر میں آواز سنائی دینے لگی۔ حاکم وقت ذوالفقار علی بھٹو نے پٹھانے خان کو صدر ہاوس مدعو کیا۔ جب پٹھانے خان نے "جندڑی لٹی تے یار سجن کدی موڑ مہار تے ول آ وطن " کافی گائی تو حاکم وقت رو پڑا ۔۔۔ تین دفعہ سنی اور تینوں دفعہ رو پڑا۔ اٹھا اور پٹھانے خان کو گلے لگا لیا۔ تین دفعہ پوچھا ۔۔۔ پٹھانے حکم کرو آج جو حکم کرو گے حاضر ہو گا۔ پٹھانے خان نے تینوں دفعہ کہا مجھے کچھ نہیں چاہیے بس غریب عوام کی پارت ہو( غریبوں کا خیال رکھیں)۔۔۔۔۔۔۔
اور "میڈا دین وی توں میڈی جان وی توں" کو یوں پڑھا کہ حق ادا کر دیا ۔۔۔جو کہ آج تک کانوں میں رس گھول رہا ہے ۔
پٹھانے خان نے آدھی زندگی ماں کی خدمت میں اور باقی آدھی اس کی یاد میں رو رو کر گزار دی ۔۔۔ جس جھونپڑی میں زندگی گزری اسی جھونپڑی میں 9 مارچ 2000 میں وفات پائی۔ پٹھانے خان کی آواز میں گائی ہوئی سرائیکی کافیوں کے چند مشہور بول
میڈا عشق وی توں میڈا یار وی توں
کیا حال سناواں دل دا کوئی محرم راز نہ ملدا
لوٹیالف الله چنبے دی بوٹی مرشد من وچ لائی ہو
پیلو پاکیاں نی
جندڑی لوٹی
اے دوست ذرا اور رگ جاں قریب ہو (اردو غزل)
No comments:
Post a Comment