رٹا سسٹم
تحریر
شاہدرشید
کسی بھی پہرے کو سوچے سمجھے یاد کر لینا رٹا کہلاتا ہے ہمارے پاکستان میں کامیابی حاصل کرنے کے لیے رٹے کو بہت ضروری سمجھا جاتا ہے اور رٹے کا ہی سہارا لیا جاتا ہے پاکستان میں رٹا سسٹم صدیوں سے چلتا آ رہا ہے اور یہ رٹا سسٹم سکول سے لے کر یونیورسٹی تک کئی برسوں سے چلتا آ رہا ہے رٹا سسٹم صرف اور صرف امتحانات میں اچھے نمبر لینے کے لیے لگایا جاتا ہے تاکہ ڈگری کے حصول کو یقینی بنایا جا سکے رٹا سسٹم میں سٹوڈنٹ کتاب کے کئی سوالات کو رٹ کے پیپر دینے چلا جاتا ہے اور بلکل کتاب جیسا ہی لکھ کے آ جاتا ہے آگر پیپر کتاب سے ہٹ کے آ جائے یا جو سوالات اس نے یاد کیے ہوتے ہیں وہ پیپر میں نہ آئیں تو رٹا لگانے والا اپنی طرف سے اپنے ذہن سے کبھی بھی نہیں لکھ پاتا اور ایسے سٹوڈنٹس نقصان اٹھا جاتے ہیں میں نے دیکھا ہے کچھ ٹیچر حضرات بچوں پر محنت کرنے اور بچوں کو سمجھانے سے گریز کرتے ہیں اور وہ سٹوڈنٹس کو زبانی یاد کرنے پر لگا دیتے ہیں میں نے ایسے والدین بھی دیکھے ہیں جن کے لیے بچے کے بس نمبر اہم ہوتے ہیں وہ جیسے بھی آئیں جس طرح بھی آئیں رٹے سسٹم کو ختم کرنے کے لیے والدین ،اساتذہ سب کو مل کر محنت کرنی پڑے گی اساتذہ کو بچوں پر وقت صرف کرنا پڑے گا ان پر مکمل توجہ دینی پڑے گی دسمبر 2021' پنجاب بورڈز چیئرمینز کمیٹی نے نئے امتحانی پیٹرن کی منظوری دیدی تھی انہوں نے رٹا سسٹم ختم کرنے کیلئے معروضی سوالات 3 حصوں میں تقسیم کرنے کی منظوری دیدی گئی، نئے پیٹرن کے مطابق طلبہ سے کیمرج طرز پر جنرلنالج،اپلیکیشن،انڈرسٹینڈنگ پر مشتمل سوالات پوچھے جائیں گے، 20 فیصد ایم سی کیوز، 50 فیصد مختصر سوالات، 30 فیصد تفصیلی سوالات شامل ہونگے۔آگر اسی امتحانی پیٹرن پر مکمل عمل ہو جائے تو کافی حد تک رٹا سسٹم سے نجات مل سکتی ہے جو ہماری آنے والی نسلوں کے لیے فائدہ مند ثابت ہو گا
No comments:
Post a Comment