تصوف، خودی اور حالات حاضرہ
خالد غورغشتی
موجودہ حالات کے تناظر میں جھانک کر دیکھا جائے تو اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں رہا ہے کہ یہ دور نت نئے نئے فتنوں کا ہے۔ اس وقت سوشل میڈیا کے باعث معاشرے میں اخلاقی قدریں نیست و نابود ہوچکی ہیں۔ ہمیں ایسے اقدامات کی اشد حاجت ہے جو معاشرے میں فوری طور پر
فتنہ و فساد کی روک تھام میں ٹھوس کردار ادا کرسکیں۔ تصوف کی کوئی بھی ایسی تعبیر جس سے تساہل پرستوں، عذر خواہوں، تصوف کی من پسند تعبیر و تشریح کرنے والوں کی حوصلہ افزائی ہوتی ہو، اس سے خواص و عوام دونوں کو بچنا چاہیے۔ اسی احتیاط کی مثالیں ہمیں اکابر صوفیاء کی تعلیمات و حیات سے ملتی ہیں۔ چنانچہ حضرت شاہ سیلمان تونسوی علیہ الرحمہ کی مجلس میں ایک شخص نے توحیدی وجود ہونے کا دعوی کیا تو آپ نے نہ صرف اس کا حال اور مشاہدے سے رد کیا، بلکہ اس طرح کے دعوؤں سے باز رہنے کی تلقین کی۔ حضرت عبدالرحمن لکھنوی علیہ الرحمہ کی مذکورہ بالا مسئلے میں درست تحقیق ہونے کے باوجود شہزادہ آل رسول پیر سید مہر علی شاہ گولڑوی علیہ الرحمہ نے نہ صرف ان کی علمی گرفت کی بلکہ ان کے رد میں مفصل کتاب بھی لکھ ڈالی۔ عوام کو فتنوں سے بچانے کےلیے سخت وعیدیں آئی ہیں۔ چنانچہ حضرت سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول پاک سے دو برتن علم محفوظ کیا، ایک برتن کو میں نے شائع کردیا۔ لیکن اگر دوسرے برتن کو میں ظاہر کروں تو میری گردن کاٹ دی جائے۔ (صحیح بخاری)
حضرت میاں شیر ربانی میاں شیر محمد شرقپوری علیہ الرحمہ کے سامنے مسئلہ وحدت الوجود پر عام لوگوں نے گفتگو شروع کردی تو آپ نے انھیں سختی سے اس مسئلے پر گفتگو کرنے سے منع کیا۔ آپ نے فرمایا یہ تو ایک حال ہے؛ نہ کہ اظہار ہے۔ جس پر وارد ہو وہی بہتر جانتا ہے۔(خزینہ معرفت صفحہ 278)
بہر حال عوام کو کسی صورت بھی ان پیچدہ مسائل میں نہیں الجھانا چاہیے کیوں کہ:
چھوڑ دے تکرار لفظی بحث سے دامن بچا
اے مرے پیارے قلندر جیت کر بھی ہار جا
بحر آرام و سکوں میں کرلے استغراق تو
لذت خلوت نشینی سے بھی ہو جا آشنا۔
No comments:
Post a Comment