آج معروف عالم دین، ماہر تعلیم، دانشور، مصنف، مترجم ڈاکٹر غلام جیلانی برق کا یومِ وفات ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
معروف عالم دین، ماہر تعلیم، دانشور، مصنف، مترجم اور شاعر ڈاکٹر غلام جیلانی برق 26 اکتوبر 1901ء کو کنٹ، پنڈی گھیپ ضلع کیمبل پور میں پیدا ہوئے تھے۔ عربی، فارسی اور اردو میں اسناد فضیلت حاصل کرنے کے بعد انہوں نے عربی اور فارسی میں ایم اے کیا۔ 1940ء میں انہوں نے امام ابن تیمیہ کی زندگی اور کارناموں پر تحقیقی مقالہ رقم کرکے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی اور پھر تدریس کے شعبے سے وابستگی اختیار کی۔
ڈاکٹر غلام جیلانی برق نے مختلف موضوعات پر چالیس کے لگ بھگ کتابیں تحریر کیں جن میں دو اسلام، دو قرآن، فلسفیان اسلام، مؤرخین اسلام، حکمائے عالم، فرمانروایان اسلام، دانش رومی و سعدی، بھائی بھائی، ہم اور ہمارے اسلاف اور میری آخری کتاب خصوصاً قابل ذکر ہیں۔
12 مارچ 1985ء کو ڈاکٹر غلام جیلانی برق اٹک میں وفات پاگئے اور قبرستان عیدگاہ میں آسودۂ خاک ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آپ نے سنا هو گا کہ دنیا کا فلسفی اعظم یعنی سقراط اونٹ کے بالوں کا کرتہ پہنتا، باسی ٹکڑے کهاتا اور ایک ٹوٹے هوئے مٹکے میں رہتا تها-
یہ بهی سنا هوگا کہ ایک بلند مقصد کی خاطر ابراهیم علیہ السلام آگ میں کود پڑے تهے-مسیح علیہ سلام نے صلیب قبول کر لی تهی اور حسین نے اپنا سارا خاندان کربلہ کے میدان میں کٹوا دیا تها،
اور یہ بهی کہ سرور عالم صلعم کی کل کائنات ایک اونٹنی،ایک گهوڑا،کهدر کا ایک جوڑا،اور بان کی ایک چارپائی تهی،سات سات دن بهوکے رہتے تهے،
بعثت سے رحلت تک چین کا ایک لمحہ بهی نصیب نہیں هوا،رات کو عبادت،دن کو سیاسی،تبلیغی اور انتظامی مصروفیات،سال میں دو دو تین تین جنگوں کی تیاری،اور استغنا و بے نوائی کا یہ عالم کہ انتقال سے پہلے حضرت عائشہ سے فرمایا:
"عائشہ!میری بالین کے نیچے دو دینار رکهے ہیں،انهیں اللہ کی راه میں دے ڈالو،مبادا کہ رب محمد ، محمد سے بدگماں هو کر ملے"-
سوال یہ ہے کہ:
ان دانایان راز فطرت،ان ہادیان نسل انسان اور عظیم مقتدایان کائنات نے یہ رویہ کیوں اختیار فرمایا ؟
کیا انهیں حسین محلات،دل نواز جنات اور آسودگی ہائے حیات سے خدا واسطے کا بیر تها ؟
کہیں اس کے وجہ یہ تو نہیں تهی کہ وه اس زندگی کی دل فریبیوں میں الجهہ کر اپنی حقیقی منزل سے غافل نہیں هونا چاہتے تهے؟
اور انهیں یقین تها کہ یہاں اللہ کی راه میں اٹهائی هوئی ہر مصیبت وہاں جنت میں بدل جائے گی-
اسی دنیا میں وه لوگ بهی موجود ہیں جو اللہ سے لاکهوں میل دور اور نشہ دولت میں چور ہیں،اقدار عالیہ سے غافل،جزا و سزا کے منکر،مصائب انسان سے بے خبر،بدمست،مغرور اور متکبر ہیں-
اگر موت کو انجام حیات سمجها جائے تو قدرتا سوال پیدا هو گا کہ ان بدمستوں میں کیا خوبی تهی کہ اللہ نے انهیں اتنا نوازا ،اور مسیحء و خلیل ء نے کیا قصور کیا تها کہ انهیں جگر دوز مصائب کا ہدف بنایا؟
اس سوال کا جواب ایک ہی هو سکتا ہے کہ دنیائیں دو ہیں-
یہ دنیا جس کی بقا "یک شرر بیش نہیں ---
اور وه دنیا،جس کا کوئی کرانہ نہیں
کوئی دانش مند چند روزه عیش کے لیے کروڑوں سال کی زندگی کو تباه نہیں کر سکتا،اور دانایان راز فطرت نے ہمیشہ یہی کیا کہ اس زندگی کے مفاد کو مقدم رکها-
اس سائنس دان سے،جو علت کو معلول سے،اسباب کو نتائج سے اور ایکشن کو ری ایکشن سے الگ فرض ہی نہیں کر سکتا،
هم یہ پوچهنے کا حق رکهتے ہیں کہ جن لوگوں نے دفاع وطن ؛قیام صداقت اور بقائے انسان کے لیے ظالم و سنگدل حکمرانوں ،ڈاکووں اور چوروں کے خلاف جہاد کیا،گهر بار لٹایا،سینوں میں برچهیاں کهائیں،اور صحراوں میں تڑپ تڑپ کر جان دی،
ان کا صلہ کہاں ہے؟ جس ہلاکو خان نے صرف بغداد میں اٹهاره لاکهہ نفوس کو قتل کیا،همارے اسلاف کی دو کروڑ کتابیں دجلہ میں پهینک دیں،اسے کیا سزا ملی؟
خود اپنے ہاں هم آئے دن دیکهتے ہیں کہ بے نوا بے سفارش لوگ ہر مقابلے میں ناکام ره جاتے ہیں،اور نا اہل سفارشی اونچی کرسیوں پہ جا بیٹهتے ہیں،کیا ان تمام نا انصافیوں کو ختم کرنے کے لئے اس زندگی کا خاتمہ اور اک نئ زندگی کا وجود ضروری نہیں؟
فلسفے کو چهوڑیے،اور روح کی بات سنیے-روح کی گہرائیوں سے دما دم یہ صدا اٹهہ رہی ہے کہ میں لازوال هوں،ابدی و سرمدی هوں،زماں ومکان میں میرا قیام عارضی ہے،
اور میرا اصلی مسکن دنیائے اثیر ہے-یہ وه صدا ہے جس کی تائید ایک کروڑ مساجد،ساٹهہ لاکهہ گرجوں اور لا تعداد مندروں سے هو رہی ہے اور یہ وه حقیقت ہے،جس کی تصدیق سوا لاکهہ انبیاء نے کی،اور جس پر آج کم از کم اڑهائی ارب انسان ایمان رکهتے ہیں-
من کی دنیا
ڈاکٹر غلام جیلانی برق
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
درج ذیل جاوید چوہدری کا کالم
ڈاکٹر غلام جیلانی برق برصغیر کا عظیم دماغ تھے‘ یہ 1901ء میں اٹک میں پیدا ہوئے‘ والد گاؤں کی مسجد کے امام تھے‘ ڈاکٹر صاحب نے ابتدائی تعلیم مدارس میں حاصل کی‘ مولوی فاضل ہوئے‘ منشی فاضل ہوئے اور ادیب فاضل ہوئے‘ میٹرک کیا اور میٹرک کے بعد اسلامی اور مغربی دونوں تعلیمات حاصل کیں۔
عربی میں گولڈ میڈل لیا‘ فارسی میں ایم اے کیا اور 1940 میں پی ایچ ڈی کی‘ امام ابن تیمیہ پر انگریزی زبان میں تھیسس لکھا‘ امامت سے عملی زندگی شروع کی‘ پھر کالج میں پروفیسر ہو گئے‘ آپ کے تھیسس کو آکسفورڈ اور ہارورڈ یونیورسٹی نے قبولیت بخشی‘ اسلام پر ریسرچ شروع کی‘ 1949ء میں پاکستان کی تشکیل سے دو سال بعد ’’دو اسلام‘‘ کے نام سے معرکۃ الآراء کتاب لکھی اور پوری دنیا کو ہلا کر رکھ دیا۔
یہ کتاب‘ کتاب نہیں تھی ایک عالمی انقلاب تھا۔ ’’دو اسلام‘‘ کے بعد ’’قرآن‘‘ اور ’’من کی دنیا‘‘ لکھی اور اسلامی دنیا کے پیاسے ذہنوں کو سیراب کر دیا‘ میں جب بھی ’’دو اسلام‘‘ اور ’’دو قرآن پڑھتا ہوں اور آج کے پاکستان کی عدم برداشت‘ مذہبی تشدد اور مکالمے کا قبرستان دیکھتا ہوں تو سوچتا ہوں ماضی کا پاکستان دانش‘ برداشت‘ علم اور مکالمے میں آج کے پاکستان سے کتنا آگے تھا تو میرا سر شرم سے جھک جاتا ہے۔
ڈاکٹر غلام جیلانی برق اور ان کا پاکستان کس قدر بالغ تھا آپ یہ جاننے کے لیے ’’دو اسلام‘‘ کا صرف ابتدائیہ ملاحظہ کیجیے ‘ میں اس ابتدائیہ کو چند جگہوں سے ایڈٹ کر رہا ہوں کیونکہ آج کا مسلمان ڈاکٹر برق کے مسلمانوں سے بہت پیچھے ہے‘ ڈاکٹر صاحب جیسے دانشوروں اور مسلم اسکالرز کی باتیں صرف ماضی میں ہی لکھی اور بیان کی جا سکتی تھیں‘ ہم لوگ آج ان کا تصور تک نہیں کر سکتے‘ کیوں؟ کیونکہ آج کے مسلمان میں سب کچھ ہے اگر نہیں ہے تو اسلام نہیں۔
یہ 1918 ء کا ذکر ہے‘میں والد صاحب کے ساتھ امرتسر گیا‘ میں چھوٹے سے گاؤں کا رہنے والا ، جہاں نہ بلند عمارات، نہ مصفا سڑکیں، نہ کاریں، نہ بجلی کے قمقمے اور نہ اس وضع کی دکانیں‘ دیکھ کر دنگ رہ گیا‘ لاکھوں کے سامان سے سجی دکانیں اور بورڈ پر کہیں رام بھیجا سنت رام لکھا تھا‘ کہیں دْنی چند اگروال‘ کہیں سنت سنگھ سبل اور کہیں شادی لال فقیر چند۔ ہال بازار کے اس سرے سے اس سرے تک کسی مسلمان کی کوئی دکان نظر نہیں آئی‘ ہاں مسلمان ضرور نظر آئے‘ کوئی بوجھ اٹھا رہا تھا۔
کوئی گدھے لاد رہا تھا‘ کوئی کسی ٹال پہ لکڑیاں چیر رہا تھا اور کوئی بھیک مانگ رہا تھا‘ غیر مسلم کاروں اور فٹنوں پر جا رہے تھے اور مسلمان اڑھائی من بوجھ کے نیچے دبا ہوا مشکل سے قدم اٹھا رہا تھا۔ ہندوؤں کے چہرے پر رونق‘ بشاشت اور چمک تھی اور مسلمان کا چہرہ فاقہ‘ مشقت‘ فکر اور جھریوں کی وجہ سے افسردہ و مسخ ۔ میں نے والد صاحب سے پوچھا !کیا مسلمان ہر جگہ اسی طرح زندگی بسر کر رہے ہیں؟والد صاحب: ہاں !میں نے عرض کیا‘ اللہ نے مسلمان کو بھی ہندو کی طرح دو ہاتھ، دو پاؤں اور ایک سر عطا کیا ہے تو پھر کیا وجہ ہے ہندو تو زندگی کے مزے لوٹ رہا ہے اور مسلمان ہر جگہ حیوان سے بدتر زندگی بسر کر رہا ہے۔
والد صاحب: یہ دنیا مردار سے زیادہ نجس ہے اور اس کے متلاشی کتوں سے زیادہ ناپاک ہیں۔ اللہ نے یہ مردار ہندوؤں کے حوالے کر دیا ہے اور جنت ہمیں دے دی ہے‘ کہو کون فائدے میں رہا ؟ ہم یا وہ؟ میں بولا ’’اگر دنیا واقعی مردار ہے تو پھر آپ تجارت کیوں کرتے ہیں اور مال تجارت خریدنے کے لیے امرتسر تک کیوں آئے ؟ ایک طرف دنیاوی ساز و سامان خرید کر منافع کمانا اور دوسری طرف اسے مردار قرار دینا ، عجیب قسم کی منطق ہے‘‘ والد صاحب: بیٹا ! بزرگوں سے بحث کرنا سعادت مندی نہیں‘ جو کچھ میں نے تمہیں بتایا ہے وہ ایک حدیث کا ترجمہ ہے۔حدیث کا نام سن کر میں ڈر گیا اور بحث بند کر دی‘ سفر سے واپس آ کر میں نے گاؤں کے مْلا سے اپنے شبہات کا اظہار کیا۔
اس نے بھی وہی جواب دیا‘ میرے دل میں اس معمے کو حل کرنے کی تڑپ پیدا ہوئی لیکن میرے قلب و نظر پہ تقلید کے پہرے بیٹھے تھے‘ علم کم تھا اور فہم محدود۔ اس لیے معاملہ الجھتا گیا‘میں مسلسل چودہ برس تک حصول علم کے لیے مختلف علماء و صوفیاء کے ہاں رہا‘ درس نظامی کی تکمیل کی‘ سیکڑوں واعظین کے واعظ سنے‘ بیسیوں دینی کتابیں پڑھیں اور بالآخر مجھے یقین ہو گیا کہ اسلام رائج کا ما حاصل یہ ہے۔
توحید کا اقرار اور صلوٰۃ‘ زکوٰۃ‘ صوم اور حج کی بجا آوری‘ اذان کے بعد ادب سے کلمہ شریف پڑھنا‘جمعرات‘ چہلم‘ گیارہویں وغیرہ کو باقاعدگی سے ادا کرنا‘ قرآن کی عبارت پڑھنا‘ اللہ کے ذکر کو سب سے بڑا عمل سمجھنا‘ قرآن اور درود کے ختم کرانا‘ حق ہو کے ورد کرنا‘ مرشد کی بیعت کرنا‘ مرادیں مانگنا‘ مزاروں پر سجدے کرنا‘ سڑکوں اور بازاروں میں سب کے سامنے ڈھیلا کرنا‘ تعویذوں کو مشکل کشا سمجھنا‘کسی بیماری یا مصیبت سے نجات کے لیے مولوی جی کی دعوت کرنا‘گناہ بخشوانے کے لیے قوالی سننا‘ غیر مسلم کو ناپاک و نجس سمجھنا‘طبیعیات ، ریاضیات، اقتصادیات ، تعمیرات وغیرہ کو کفر خیال کرنا‘غور و فکر اور اجتہاد و استنباط کو گناہ قرار دینا‘ صرف کلمہ پڑھ کر بہشت میں پہنچ جانااور ہر مشکل کا علاج عمل اور محنت کی بجائے دعاؤں سے کرنا ۔میں علمائے کرام کے فیض سے جب تعلیمات اسلامی پر پوری طرح حاوی ہو گیا تو یہ حقیقت واضح ہوئی خدا ہمارا‘ رسول ہمارا‘ فرشتے ہمارے‘ جنت ہماری‘ حوریں ہماری‘ زمین ہماری‘ آسمان ہمارا الغرض سب کچھ کے مالک ہم ہیں اور باقی قومیں اس دنیا میں جھک مارنے آئی ہیں۔
ان کی دولت‘، عیش اور تنعم محض چند روزہ ہے۔ وہ بہت جلد جہنم کے پست ترین طبقے میں اوندھے پھینک دیے جائیں گے اور ہم کمخواب و زربفت کے سوٹ پہن کر سرمدی بہاروں میں حوروں کے ساتھ مزے لوٹیں گے۔
’’زمانہ گزرتا گیا‘انگریزی پڑھنے کے بعد علوم جدیدہ کا مطالعہ کیا‘ قلب و نظر میں وسعت پیدا ہوئی‘ اقوام و ملل کی تاریخ پڑھی تو معلوم ہوا مسلمانوں کی 128 سلطنتیں مٹ چکی ہیں‘ حیرت ہوئی کہ جب اللہ ہمارا اور صرف ہمارا تھا تو اس نے خلافت عباسیہ کا وارث ہلاکو جیسے کافر کو کیوں بنایا؟ ہسپانیہ کے اسلامی تخت پہ فرونیاں کو کیوں بٹھایا؟ مغلیہ کا تاج الزبتھ کے سر پر کیوں رکھ دیا؟ بلغاریہ‘ ہنگری‘ رومانیہ‘ سرویا‘ پولینڈ‘ کریمیا‘ یوکرائین‘ یونان اور بلغراد سے ہمارے آثار کیوں مٹا دیے؟ ہمیں فرانس سے بیک بینی دو گوش کیوں نکالا اور تیونس، مراکو‘ الجزائر اور لیبیا سے ہمیں کیوں رخصت کیا؟ میں رفع حیرت کے لیے مختلف علماء کے پاس گیا لیکن کامیابی نہ ہوئی۔
میں نے اس مسئلے پر پانچ سات برس تک غور و فکر کیا لیکن کسی نتیجے پر نہ پہنچ سکا‘ میںایک دن سحر کو بیدار ہوا‘ طاق میں قرآن شریف رکھا تھا‘ میں نے اٹھایا ، کھولا اور پہلی آیت جو سامنے آئی وہ یہ تھی‘ (ترجمہ) کیا یہ لوگ نہیں دیکھتے ہم ان سے پہلے کتنی اقوام کو تباہ کر چکے ہیں‘ ہم نے انھیں وہ شان و شوکت عطا کی تھی جو تمہیں نصیب نہیں ہوئی۔
ہم ان کے کھیتوں پر چھما چھم بارشیں برساتے تھے اور ان کے باغات میں شفاف پانی کی نہریں بہتی تھیں لیکن جب انھوں نے ہماری راہیں چھوڑ دیں تو ہم نے انھیں تباہ کر دیا اور ان کا وارث کسی اور قوم کو بنا دیا‘‘۔میری آنکھیں کھل گئیں‘ اندھی تقلید کی وہ تاریک گھٹائیں جو دماغی ماحول پر محیط تھیں یک بیک چھٹنے لگیں اور اللہ کی سنت جاریہ کے تمام گوشے بے حجاب ہونے لگے۔ میں نے قرآن میں جا بجا یہ لکھا دیکھا ’’یہ دنیا دار العمل ہے‘ یہاں صرف عمل سے بیڑے پار ہوتے ہیں‘ ہر عمل کی جزا و سزا مقرر ہے جسے نہ کوئی دعا ٹال سکتی ہے اور نہ دوا‘‘۔
’’لیس للانسان الا ماسعی ۔ انسان کے لیے وہی کچھ ہے جس کی وہ کوشش کرتا ہے (القرآن)۔ میں سارا قرآن مجید پڑھ گیا اور کہیں بھی محض دعا یا تعویذ کا کوئی صلہ نہ دیکھا‘ کہیں بھی زبانی خوشامد کا اجر زمردیں محلات‘ حوروں اور حجوں کی شکل میں نہ پایا‘ یہاں میرے کانوں نے صرف تلوار کی جھنکار سنی اور میری آنکھوں نے غازیوں کے وہ جھرمٹ دیکھے جو شہادت کی لازوال دولت حاصل کرنے کے لیے جنگ کے بھڑکتے شعلوں میں کود رہے تھے۔
وہ دیوانے دیکھے جو عزم و ہمت کا علم ہاتھ میں لیے معانی حیات کی طرف باانداز طوفان بڑھ رہے تھے اور وہ پروانے دیکھے جو کسی کے جمالِ جاں افروز پہ رہ رہ کے قربان ہو رہے تھے۔قرآن مجید کے مطالعے کے بعد مجھے یقین ہو گیا مسلمان ہر جگہ محض اس لیے ذلیل ہو رہا ہے کہ اس نے قرآن کے عمل، محنت اور ہیبت والے اسلام کو ترک کر رکھا ہے۔ وہ اوراد و اوعیہ کے نشے میں مست ہے اور اس کی زندگی کا تمام سرمایہ چند دعائیں اور چند تعویذ ہیں اور بس۔ اور ساتھ ہی یقین ہو گیا کہ اسلام دو ہیں‘ ایک قرآن کا اسلام جس کی طرف اللہ بلا رہا ہے اور دوسرا وہ اسلام جس کی تبلیغ ہمارے اسّی لاکھ مْلاقلم اورپھیپھڑوںکاسارازورلگا کر کر رہے ہیں‘‘۔
برق کیمبل پور۔25 ستمبر 1949ء
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
No comments:
Post a Comment