Wednesday, March 8, 2023

ڈنکی یا خون کی ہولی تحریرخالد غورغشی

 ڈنکی یا خون کی ہولی!


خالد غورغشتی 


ڈنکی کا نام آتے ہی دل و دماغ پر ہیبت ناک قسم کا خوف طاری ہوجاتا ہے۔ موت کے مناظر آنکھوں کے سامنے آجاتے ہیں۔ ہمارے ملک کی بدقسمتی کہ یہاں لوگوں کو بنیادی ضروریات زندگی کی سہلولیات دور دور تک میسر نہ ہونے کی وجہ سے آئے روز خودکشیوں، چوریوں، ڈاکیتیوں میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ 

آج کل روزانہ ہی کہیں نہ کہیں ہم سوشل میڈیا پر دیکھتے رہتے ہیں کہ مسلسل کئی کئی دنوں فاقوں اور آٹا نہ ملنے کی وجہ سے ایک شخص نے گھر والوں سمیت خود کشی کرلی تو کہیں ہم ملاحظہ کرتے ہیں کہ پیٹرول نہ ملنے کی وجہ سے رکشہ ڈرائیور نے رکشے کو آگ لگا کر جلا دیا۔ کہیں بے روزگاری کے ہاتھوں تنگ آکر لوگ خودکشیاں کررہے ہوتے ہیں تو کہیں کئی کئی ماہ مکان، بجلی اور گیس کے بل نہ ہونے کی وجہ سے لوگ خود کشیاں کررہے ہوتے ہیں یہ حقیقی واقعات اس قدر عام ہوچکے ہیں کہ اس کو پاکستان میں بطور ایک خبر کے بھی جگہ ملنی محال ہوچکی ہے اور اگر مل بھی جائے جس جگہ یہ واقعہ وقوع پذیر ہوا وہاں کے بےحس لوگ  اگلے ہی دن اس واقعے کو بھول جاتے ہیں۔ بطور قوم ہم منافق بھی ہیں بےحس بھی اور اعلی درجے کے مفاد پرست بھی ہیں۔ ہمارا دین و دنیا ذاتی مفادات سے شروع ہوکر ذاتی مفادات پہ ختم ہوجاتا ہے۔ اس لیے اگر سارا پاکستان جل بھی جائے تو ہمارا گھر سلامت رہا تو ہم اپنے گھر کی سلامتی کی خوشیاں منا رہے ہوں گے۔


زندگی سے مایوس و لاچار عوام کےلیے آخری حربہ رہ جاتا ہے وطن حقیقی کو چھوڑ کر دیار غیر کی طرف ہجرت کرنا لہذا وہ دیوار غیر جانے کےلیے ایسے ایجنٹوں کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں جو انھیں سبز باغ دکھا کر غیر قانونی طور پر ترکیہ سے یورپی ممالک بھیجتے ہیں جو ایک خون کی ہولی ہوتی ہے۔ ڈنکی کا دوسرا نام موت ہے یا اسے خودکشی بھی کہ سکتے ہیں۔ حالات سے مجبور بے بس لوگ جان کی بازی لگا کر بھی تقدیر بدلنے کےلیے یورپی ممالک جانا چاہتے ہیں۔ 


اسی دوران ان کے ساتھ ڈراؤنے راستوں میں کیا گزرتی ہیں وہ ملاحظہ کریں:

جس دن ڈنکی لگانے والا کا گروہ بلوچستان یا افغانستان سے روانہ ہوتا ہے ان کا پہلا پڑاؤ ایران کا باڈر ہوتا ہے۔ ان کو عموما ایک چھوٹی سی 80 ماڈل گاڑی میں بیٹھا کر جہاں دس افراد کی شمولیت کی جگہ ہوتی ہے وہاں تیس آدمیوں کا گروپ بیٹھا یا لٹادیا جاتا ہے۔ اسی دوران گاڑی پتھریلی، ڈھلوانی، اور پہاڑی علاقوں سے ہوتی ہوئی مقررہ فاصلہ طے کرکے ایران باڈر تک پہنچتی ہے تو اکثر لوگوں کی ٹانگیں یا بازوں شل اور جسم زخموں سے چھلنی چھلنی ہوجاتے ہیں۔ ایران باڈر کے قریب رک کر پہاڑی، جنگلی اور برفیلی علاقوں سے رات کے وقت پیدل سفر کروایا جاتا ہے۔ اسی دوران گروہ سے کوئی شخص بیمار پڑگیا یا زخموں سے چکنا چور ہوگیا تو اس کو انہی پہاڑوں، جنگلوں، غاروں، برفیلی علاقوں میں موت کے حوالے کرکے منزل کی جانب سے تیزی سے سفر کیا جاتا ہے۔ ایسے ہی سفر کی ایک ویڈیو گزشتہ دنوں سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی، جس میں ایک بھائی بیمار ہونے باعث اپنے سگے بھائی سے مدد کی اپیل کررہا ہے اور بھائی یہ کہ کر آگے نکل جاتا ہے۔ "کہ تم یورپ جا کے اپنے لیے کماؤ گے میرے لیے نہیں۔"


ایسے ایسے دل خراش موت کے مناظر ڈنکی لگانے والوں کے سوشل میڈیا کے ذریعے آئے روز سامنے آتے رہتے ہیں کہ انسانیت کی روح کانپ جاتی ہے۔ کبھی سمندری راستوں سے یورپ جانے والوں کی پکڑے جانے کے ڈر سے کشتیاں الٹ دی جاتی ہیں تو سینکڑوں افراد چند سیکنڈ میں سمندر میں ہی لقمہ اجل بن جاتے ہیں تو کبھی چلتی گاڑی سے چھلانگ لگا کر سیکورٹی آفیسر سے جان بچانے کےلیے کہا جاتا ہے۔ تو کبھی جنگلی راستوں میں درندروں کے حوالے کرکے سفر طے کروایا جاتا ہے۔ آج ہمارے ملک میں عوام کو کم سے کم دو وقت کی عزت کے ساتھ روٹی کی فراہمی کی جائے کل ہماری عوام پاؤں پہ کھڑا ہوگی۔ یہ جو کچھ افراتفری ہے اس میں سرمایہ داروں ،جاگیرداروں اور حکمرانوں کا سو فیصد قصور ہے کہ انہوں نے مال اکھٹا کرکے اپنے اپنے بینک بھر لیے ہیں اور غریبوں سے دو وقت کی روٹی تک چھین لی ہے۔


No comments:

Post a Comment