غزل
نیند کا انتظار تھا ہی نہیں
خواب پر انحصار تھا ہی نہیں
تجھ کو تصویر کر نہیں پایا
یہ مرا اختیار تھا ہی نہیں
اک عجب گلستاں میں آ گیا تھا
پھول تھے، کوئی خار تھا ہی نہیں
کیسے سجدہ خدا کو کرتا میں
دل عبادت گزار تھا ہی نہیں
جتنے احباب تیرے دل میں تھے
اُن میں میرا شمار تھا ہی نہیں
کس، کی آواز پر چلا گیا میں
کوئی دریا کے پار تھا ہی نہیں
طارق جاوید کبیروالا
No comments:
Post a Comment