غزل
وہ جو خوشنودیءِ شاہی میں بہم بولتے ہیں۔
بات آ جائے فقیروں کی تو کم بولتے ہیں۔
شعر گو ہیں سو سلیقہ بھی ہے گویائی کا۔
" بس ذرا ظرف کشادہ ہے سو کم بولتے ہیں"۔
سب کی سنتے ہیں خموشی سے۔ نہیں کہتے کچھ۔
"پر جہاں کوئی نہیں بولتا۔ ہم بولتے ہیں"۔
کیسے حالات بدل دیتے ہیں اوقات حضور۔
آپ کے لہجے میں دینار و درِہم بولتے ہیں۔
جن کو خوشیوں کی بھی چہکار سنائی نہیں دی۔
آ کے سن لیں۔ مرے کمرے میں تو غم بولتے ہیں۔
ایک ہی گھر میں ہیں سب اجنبی لوگوں کی طرح۔
نہ کوئی ہم کو بلاتا ہے۔ نہ ہم بولتے ہیں۔
شہزاد واثق
عزت افزائی کا شکریہ برادر۔ زندہ باد
ReplyDelete