کچھ نہیں مجھکو ملا صحن کشادہ کر کے
پورا بس قرض کیا عمر کو آدھا کرکے
کھیل بھی دان کیا عین جوانی بھی گئی
اور وہ چپ ہے مرے رزق کا وعدہ کرکے
ایک نواب نے میراث بڑھاتے مرنا
ایک مزدور مرے بھوک لبادہ کرکے
پھل تو مالک کی عطا ہوتی ہے ورنہ لوگو
کس نے کھایا ہے یہاں اپنا ارادہ کرکے
اسکی دیوار کو چھو لوں تو میں حالت بدلوں
اور وہ ہے کہ گراتا ہے پیادہ کرکے
آج میری زمیں مجھ کو ہے قسم روٹی کی
عشق بھی تجھ سے کیا خوب اسے سادہ کرکے
میں وہ خاکی ہوں جسے خاک کیا جاتا ہے
ہاتھ ریکھا سے کسی طرح افادہ کرکے
(محمد یاسین خاکی)
No comments:
Post a Comment