*ظرافت انگیزیاں*
تنخواہ والے دن دفتر میں کام کرنے والے بابو کو جب تنخواہ ملی تو وہ اپنی تنخواہ وصول کرنے کے بعد دفتر سے چھٹی کرکے نکلا اور گھر جانے کے لیے مسافروں سے بھری بس میں سوار ہوگیا۔
اسی بس میں ایک جیب کترا تھا جس نے اس کی جیب مار کر ساری تنخواہ اڑا لی۔
جب بس کنڈیکٹر نے ٹکٹ کے لیے پیسوں کا پوچھا تو بابو نے جیب میں ہاتھ ڈالا تو جیب کو خالی پاکر اس شریف شخص کا چہرہ ندامت کے مارے سرخ ہو گیا اور زبان لڑکھڑانے لگی۔
بس کنڈیکٹر نے اسے طنزیہ انداز میں کہا
" بلا ٹکٹ سفر کرنے پر تمھیں شرم آنی چاہیے ،ظاہری حلیے سے دیکھنے میں تو تم معزز شخص لگتے ہو، مگر تمھاری جیب میں پھوٹی کوڑی بھی نہیں ہے"۔
جیب کترا جو پاس ہی کھڑا تھا، اس نے کنڈیکٹر کے کندھے پر ہاتھ مارا اور کنڈیکٹر سے کہا
" میرے بھائی، اس شریف شخص کا تمسخر اڑانا بند کرو، اس کے ٹکٹ کی قیمت میں ادا کروں گا"۔
یہ سن کر بابو نے خدا کا شکر ادا کیا اور مسکرا کر جیب کترے سے کہا؛
"خدا آپ کو خوش رکھے اور آپ جیسے لوگوں کے کاروبار میں خوب ترقی دے ،کیونکہ آپ جیسے ہی معاشرے کے حقیقی ہمدرد لوگ ہیں جو مصیبت میں مبتلا لوگوں کا خیال رکھتے ہیں"
کسی اجنبی پر مہربانی کا یہ منظر دیکھ کر بس کے مسافر بھی اس چور کے اعلیٰ اخلاق کی تعریف کرنے کے ساتھ اُس کے لیے دعا کرنے لگے، کہ خُدا اس مہربان شخص کے کاروبار میں برکت عطا فرمائے اور اُس جیسے لوگوں کا معاشرے میں اضافہ ہو۔
اللہ نے لوگوں کی آواز سن لی اور اس چور کےکام میں برکت ڈال دی ، اس بس میں موجود سات مزید مسافروں کی جیبوں کا صفایا ہو گیا
آج کل ہم اپنے اردگرد ہر جگہ جتنے بھی چور اچکے دیکھتے ہیں یہ سب ہماری لاعلمی میں کی گئی دعاؤں کا نتیجہ ہیں ،کیونکہ اس کے بعد سے چوروں کی تعداد میں خوب اضافہ ہوا ،اور اب وہ چوری بھی کرتے ہیں اور ساتھ ہم سے شکریہ اور تعریف بھی وصول کرتے ہیں۔
چور ترقی کرتے کرتے کہاں سے کہاں پہنچ گئے ہیں اور ہم ابھی تک بس میں کھڑے لٹ رہے ہیں اور چوروں کا شکریہ ادا کرتے ہوئے ،ان کی ترقی کے لیے دل سے دعائیں بھی مانگ رہے ہیں!! "
پروفیسر ظریف
No comments:
Post a Comment