Friday, February 17, 2023

جیسی کرنی ویسی بھرنی



حقیقت حال

خالد غورغشتی

 

مملکت اسلامیہ پاکستان میں  معیشت کے برترین حالات ہوچکے ہیں۔ جس کی وجہ سے عوام عجیب وغریب ذہنی کشمکش کا شکار ہوچکی ہے۔ ہر شخص اس فکر میں ہے کہ اس کا کیا بنے گا؟


اسے آئندہ روٹی، کپڑا اور مکان بھی میسر ہوگا یا نہیں؟ 

ہر طرف نفسانفسی طاری ہوچکی ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے قیامت سے پہلے ایک قیامت صغری برپا ہوچکی ہے۔ شاید ہی ملک میں کوئی ادارہ، کاروبار، مارکیٹنگ بچی ہو، جہاں ہم خسارے اور بحران سے دوچار نہ ہوں۔


اس وقت ہماری معیشت اس قدر قرضوں کے گرداب میں پھنس چکی ہے کہ دور دور تک معیشت کے سنورنے کے آثار نظر نہیں آتے ہیں۔ 


اس برترین مہنگائی نے عوام سے دو وقت کی روٹی چھین کر رکھ دی ہے۔ ملک میں لوٹ مار، چور ڈکیتی، افراتفری اور مارا ماری عروج پر جاپہنچی ہے۔ آٹا نایاب ہونے کے باعث اس کے حصول کےلیے ملک بھر میں لمبی لمبی قطاریں لگی ہوئی ہیں۔ جن کو آٹا مل جائے وہ خوشی سے پھولے نہیں سماتے ہیں اور جن کو کئی کئی دن لمبی لمبی قطاروں میں کھڑے رہنے کے باوجود بھی آٹا نہ ملے وہ خودکشیاں کررہے ہیں۔


دنیا حیرت زدہ ہے کہ پاکستان ایک عظیم ترین زرعی ملک ہے یہاں کثیر رقبے پر گندم کی کاشت کی جاتی ہے آخر یہ آٹے کی مصنوعی قلت کیسی؟ 


بحثیت قوم ہماری سب سے بڑی بدقسمتی یہ ہے کہ آج ہم نے ہر کھانے پینے کی چیز کا ذخیرہ شروع کردیا ہے۔ جس کی وجہ سے اکثر کھانے پینے کی اشیاء گل سڑ کر خراب ہوتی رہتی ہیں لیکن! ہم ان کو بانٹنے میں عار محسوس کرتے ہیں۔ اگر اب بھی ہم اپنے گھروں کے فریجوں میں جھانک کر دیکھیں تو ہماری حالت کھانوں کی بدبو سے خراب ہوجائے۔ 


ہمارے گھروں کے فریجوں میں سات رنگ کے کھانے پینے کی اشیاء گل سڑ کر کباب ہوچکی ہوتی ہے لیکن ہم نے انھیں بانٹنے کا مزاج نہیں رکھتے۔ مجھے تو اکثر فریج کے گلے سڑے کھانے دیکھ کر قے آجاتی ہیں۔ ناجانے لوگ کیسے فریجوں کے گلے سڑے باسی کھانے کھالیتے ہیں۔ 


آج ہمارے اوپر جو قحط سالی اور برترین مہنگائی مسلط ہے۔ اس میں یقینی طور پر ہمارا سو فیصدی قصور ہے۔ ذخیرہ اندوزی، لالچ، اور مال جمع کرنے کی حرص نے ہمیں اس قدر ڈھیٹ بنا دیا ہے کہ آج ہم پر چاروں طرف رزق کے دروازے تنگ ہوچکے ہیں۔  آج اگر ہم بانٹنے کا مزاج پیدا کریں کل ہر طرف معاشرے میں خوش حالیاں ہی خوش حالیاں آجائیں گی۔

No comments:

Post a Comment