Monday, February 20, 2023

عابد محمود عابد

 برسوں کی پہچان

تحریر۔ عابد محمود عابد 


یہ برسوں پہلے کی بات ہے ، سکول لائف کا زمانہ تھا ، بڑے بھائی مختلف بچوں کے رسائل لے کر آتے تھے تو مجھ میں بھی انہیں پڑھنے کا شوق پیدا ہوگیا ، ان میں سوموار کے سوموار ایک اخبار بھی ہوتا تھا ، جس کو روزنامہ امروز کہا جاتا تھا اور سوموار کے سوموار اس میں خاص بات بچوں کی دنیا کے نام سے ایک میگزین ہوتا تھا ، وہ پڑھنا شروع کیا تو دل اسکا دیوانہ سا ہوگیا اور اسی دیوانگی میں ایک دن ایک تحریر لکھ کر روزنامہ امروز کے ایڈریس پر بھیج دی اور وہ دن عید جیسا تھا کہ جس سوموار کو وہ تحریر بچوں کی دنیا امروز میں شائع ہوئی ، بس پھر لکھنے لکھانے کا نہ رکنے والا سلسلہ شروع ہوگیا ، اس میں لکھنے والے دوسرے لکھاریوں سے بھی ایک گہری انسیت سی پیدا ہوگئی ، خطوط کے ذریعے ایک دوسرے سے نوک جھونک اور لڑائیاں جھگڑے بھی ہوتے تھے ، وہ قلمی دوستی کا زمانہ تھا ، بہت سے لکھاریوں سے قلمی دوستی بھی چلتی رہی اور پھر 1991 میں ایک بہت بڑا سانحہ ہوا اور حکومتی سرپرستی میں چلنے والا روزنامہ امروز بند ہوگیا اور سب کے دل بجھ سے گئے ، آہستہ آہستہ ایک دوسرے سے رابطے بھی ختم ہوتے گئے ، ایسا لگا کہ سب بچھڑ گئے ہیں اور زندگی کی بھول بھلیوں میں کہیں کھو گئے ہیں ، کئی ماہ و سال بیت گئے اور پھر چند سال پہلے جب سوشل میڈیا کا انقلاب اپنے عروج پر تھا تو امروز کے چند لکھاریوں کے آپس میں رابطے ہوئے  اور پھر بزم امروز کے کے نام سے ایک واٹس ایپ گروپ تشکیل پایا جس میں آہستہ آہستہ امروز کے بہت سے لکھاری شامل ہوتے گئے ، پھر ان پرانے دوستوں نے مل بیٹھنے کے لیے اجلاس منعقد کرنے شروع کیے ، ایسا ہی ایک اجلاس اتوار 12 فروری کو لاہور کے مقامی ہوٹل میں منعقد ہوا ، جس میں راقم الحروف کو بھی شرکت کا موقع ملا ، امروز کے بچپن کے دوست لکھاری ایک دوسرے سے مل کر بہت پرجوش اور بے انتہا خوش تھے ، رانا گلزار احمد کی میزبانی اور مسرت کلانچوی کی زیر صدارت ہونے والے اس اجلاس میں شرکت کرنے والے پرانے لکھاری دوستوں کے نام یہ ہیں 

فضل احمد فانی ، فاروق ندیم ، اقرار اعوان ، اسد بخاری ، ثمرینہ جمال ثمر ، آئینہ مثال ، ایوب منظر ، مریم راشد ، روبینہ ناز روبی ، راشد قمر ، عبدالرزاق شاہد ، شکیل عادل ، ارشاد العصر جعفری ، پرنس افضل شاہین ،رانا اسرار احمد ، ظفر اللہ ضیا ، اختر جاوید ، جاوید بربرہ، طاہر امین ، سجاد احمد اور راقم الحروف عابد محمود عابد 

اجلاس کے بعد یادیں اپنے دلوں میں لیے سب اپنے گھروں میں چلتے ہوئے یہ سوچ رہے تھے کہ برسوں کی یہ پہچان اب اتنی گہری ہوگئی ہے کہ لگتا ہی نہیں کہ اتنا عرصہ سب دوست ایک دوسرے سے دور رہے ۔۔۔


No comments:

Post a Comment