یہ دوہرا معیار آخر کب تک
حقیقت حال
خالد غورغشتی
سوشل میڈیا پر ان دنوں ایک ویڈیو خوب وائرل ہے۔ جس میں ایک پاکستانی تاجر دبئی میں اپنی بیٹی کی شادی کے موقع پر اسے ترازو میں سونے سے تول رہا ہے۔ اس عیاشی کو جس بری رسم کا نام دیں کم ہے، کیوں کہ ایسی رسومات نے پاکستان میں موجود پسے ہوئے طبقے کی زندگیاں عذاب بنا کر رکھی دی ہیں۔ ایک طرف ہمارے ملک میں وہ طبقہ ہے جس کے پاس کھانے کو دو وقت کی روٹی میسر نہیں ہے جب کہ دوسری طرف وہ طبقہ ہے جو ہوٹلوں کے مہنگے کھانوں شیدائی ہے۔
ایسے ہی ایک طرف سیلاب سے متاثرہ پانچ کروڑ عوام ہے جو کھلے آسمانوں تلے بھوک سے سسک سسک کا مررہی ہے تو دوسری جانب ہم نے ان کی امداد کرنے کی بجائے عمروں پہ جانے کی رسم شروع کر رکھی ہے۔
قوموں پر جب بھی مشکل وقت آتا ہے وہ یکجا ہوکر اور ڈٹ کر مقابلہ کرتی ہیں، لیکن ہم نے مشکل وقت میں اپنے بھائیوں کا ساتھ دینے کی بجائے انھیں نفرتوں، حقارتوں اور ذلتوں سے نوازنے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی ہے۔
اس وقت جب کہ سیلاب کے بعد ملک بھر میں قحط سالی اور مہنگائی اوج ثریا پر ہے ہر طرف افراتفری اور بے یقینی کی سی صورت حال ہے۔ ہماری نوے فی صد قوم دو وقت کی روٹی کےلیے ترس رہی ہے لیکن اس وقت بھی ہم کوٹھیاں، مدرسے، دینی ادارے بنانے اور عمرے کرنے پہ لگے ہوئے ہیں۔ مجھے بتاؤ کہ کیا یہ مدرسے بنانے، مسجدیں اور عمرے کرنے کا وقت ہے یا بے بسوں و لاچاروں اور بھوک و پیاس سے مرنے والوں کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑے ہوکر ان کے ہاتھ بٹھانے وقت ہے۔
ایسی فرعونیت کس معاشرے میں پائی جاتی ہوگی جیسی ہمارے معاشرے میں پائی جاتی ہے کہ شادیوں کے ولیموں اور دعوتوں میں اور مردوں کی برسی میں کروڑوں روپے پانی کی طرح دعوتوں میں ایک دن میں بہادیا جاتا ہے اور پڑوسی فاقوں سے مررہے ہوتے ہیں لیکن ہم تو۔۔
اب تو جان کر انجان بن جائیے تماشائی بن کر تماشا دیکھیے
کے مصداق دوسروں کی بےبس پہ خوب اندد ہی اندر سے جشن منا رہے ہوتے ہیں۔
آج ہمارے معاشرے میں صاحب نصاب محض زکوتہ کی درست ادائیگی کریں تو ملک سے 90 فی صد مسائل چند ماہ میں ختم ہوجائیں لیکن یہ کیسے ختم ہوسکتے ہیں ہم نے تو دین میں بھی رسومات ڈال کر اپنے من پسند طریقوں کے مطابق ہی چلنا ہے۔
No comments:
Post a Comment