Thursday, March 16, 2023

ڈاکٹر رتھ فاؤ پاکستانیوں کی محسن

 پاکستانیوں کی مُحسن، ڈاکٹر رتھ فاؤ            


1963 میں ڈاکٹر رتھ فاؤ نے پاکستان میں پہلی مرتبہ کراچی کے علاقے برنس روڈ پر لیپروسی سینٹر ( جزام سینٹر) کی بنیاد رکھی اور فیصلہ کیا کہ میکلوڈ روڈ پر جھونپڑ پٹی میں موجود کوڑھ کے مریضوں کو اسپتال منتقل کیا جائے گا۔


اس زمانے میں کوڑھ کے مریضوں کے پاس جانے کو بھی خطرناک سمجھا جاتا تھا اس لئے مریضوں کی منتقلی کا کام رات کی تاریکی میں کیا جاتا، چند ہی روز میں علاقہ مکینوں کو اسپتال کا معلوم ہوا تو انہوں نے اسپتال کے خلاف ہائیکورٹ میں کیس دائر کردیا۔


اس زمانے میں بااثر خاندان کی بااثر شخصیت ڈاکٹر زرینہ فضل بائی نے ڈاکٹر رتھ کا ساتھ دیا اور کیس لڑنے میں بھرپور تعاون کیا، انہوں نے عدالت کو مطمئن کیا اور فیصلہ حق میں آنے کے بعد لیپریسی سینٹر نے باقاعدہ طور پر کام شروع کردیا۔


ڈاکٹر رتھ نے مشاہدہ کیا کہ کراچی کے لیپریسی سینٹر میں ملک بھر سے مریض آنے لگے جس کے بعد انہوں نے 1965 میں مقامی لوگوں کو تربیت دینا شروع کی اور خاص طور پر خیبرپختونخوا اور شمالی علاقہ جات سے تعلق رکھنے والے پیرا میڈکس کو کوڑھ کے علاج کی تربیت دی۔


ڈاکٹر رتھ فاؤ نے خود باہر نکل کر کوڑھ کے مرض سے متعلق شعور اجاگر کرنے کے لئے کراچی کی سڑکوں پر ریلیاں نکالیں، گرم ترین صحرائے تھر گئیں، دشوار گزار پہاڑی علاقوں کا دورہ کیا اور سرحدی علاقوں میں موجود کوڑھ کے مریضوں کا علاج کیا۔


سادہ سے کپڑوں میں ملبوس اور مشرقی روایات میں ڈھل کر ڈاکٹر رتھ ٹوٹی پھوٹی اردو میں مریضوں سے بات کیا کرتیں اور پاکستانی زبانوں پر عبور حاصل نہ ہونے کے باوجود وہ مریضوں کی بات سنا کرتیں اور جب وہ کوڑھ کے مریضوں کو ہاتھ لگا کر علاج کرتیں تو دیکھنے والے حیرت زدہ ہوجاتے۔


ملک میں کوڑھ کے مرض کے خاتمے اور فلاحی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے پر حکومت پاکستان نے انہیں 1969 میں ستارہ قائداعظم کے ایوارڈ سے نوازا اور اس وقت کے صدر جنرل یحیٰ خان سے میڈل وصول کیا۔


ڈاکٹر رتھ نے 1975 میں خیبرپختونخوا، 1976 میں بلوچستان اور 1984 میں گلگت بلتستان میں لیپریسی سینٹر کھولے۔ 


1986 میں عالمی ادارہ صحت نے کوڑھ کے مریضوں کے لئے ملٹی ڈرگ تھراپی متعارف کرائی جو اس مرض پر قابو پانے کے لئے سود مند ثابت ہوئی۔


ڈاکٹر فاؤ کی بھارت کی مدر ٹریسا سے ملاقات کے دوران لی گئی فوٹو، یہاں سابق صدر ضیاء الحق کو بھی دیکھا جا سکتا ہے۔

ڈاکٹر رتھ جس سماجی تنظیم سے جرمنی میں وابستہ تھیں اس نے انہیں بھارت میں مدر ٹریسا سے ملنے کا کہا تھا لیکن ویزا مسائل کی وجہ سے ڈاکٹر رتھ بھارت تو نہ جاسکیں البتہ مدر ٹریسا خود ہی پاکستان آگئیں۔


اس وقت کے صدر ضیاالحق نے مدر ٹریسا کو پاکستان مدعو کیا اور کراچی سے خصوصی طور پر ڈاکٹر رتھ کو بھی اسلام آباد بلایا گیا، اگر یوں کہا جائے کہ صدر ضیاالحق نے پاکستانی اور بھارتی مدر ٹریسا کی ملاقات کا اہتمام کیا تو غلط نہ ہوگا۔


صدرضیاالحق نے ڈاکٹر فاؤ کو فیڈرل ایڈوائزر مقرر کیا جس کے بعد پاکستان میں جاری لیپروسی پروگرام ان کے حوالے کردیا اور ڈاکٹر رتھ کی کوششوں کی بدولت 1996 میں عالمی ادارہ صحت نے اعلان کیا کہ پاکستان سے کوڑھ کے مرض کا خاتمہ ہوچکا ہے۔


میری ایڈیلیڈ لیپروسی سینٹر کے میڈیا منیجر نثار ملک کے مطابق صدر ضیاالحق نے ڈاکٹر رتھ کی خدمات کے پیش نظر انہیں پاکستانی شہریت جاری کی لیکن ڈاکٹر رتھ نے شہریت لینے سے انکار کردیا کیوں کہ وہ اپنی جرمن شناخت کو ختم نہیں کرنا چاہتی تھیں۔


نثار ملک کے مطابق ڈاکٹر رتھ ہمیشہ کہتی تھیں جرمنی تو وہ ملک ہے جہاں میں پیدا ہوئی لیکن پاکستان میرے دل کا ملک ہے اور اگر میں مرجاؤں تو مجھے یہیں دفن کیا جائے


نثار ملک کے مطابق ڈاکٹر رتھ فاؤ کی خواہش کے مطابق گورا قبرستان میں ان کی تدفین کی جائے گی۔


ایڈی لیڈ لیپروسی سینٹر کے میڈیا منیجر کے مطابق جرمن لیپروسی ریلیف ایسوسی ایشن نامی تنظیم ان کی پارٹنر ہے جو پاکستان میں میری لیڈ سینٹر کے لئے 60 فیصد فنڈنگ کرتی ہے جب کہ پاکستان سے زکواۃ، خیرات، صدقات اور ڈونیشن کی صورت میں 40 فیصد امداد جمع ہوتی ہے۔


ڈاکٹر رتھ فاؤ کے ملک بھر میں 157 سینٹر کام کر رہے ہیں جس میں نہ صرف کوڑھ کے مریضوں کا بلکہ اندھے پن کے کنٹرول، زچہ و بچہ کی دیکھ بھال، تپ دق کے مریضوں کا بھی علاج کیا جاتا ہے،


ڈاکٹر رتھ کے سینٹر میں سالانہ 400 سے 500 کوڑھ کے مریض علاج کے لئے آتے ہیں تاہم مریضوں کی تعداد میں مسلسل کمی آرہی ہے اور اس وقت تقریبا ساڑھے 500 مریض زیرعلاج ہیں جب کہ مجموعی رجسٹرڈ مریضوں کی تعداد 57 ہزار 700 سے ہے۔


ان کے مطابق ڈاکٹر رتھ سال 2000 تک تمام امور کی نگرانی خود کیا کرتیں اور ہر سینٹر میں جاکر انتظامات کا جائزہ لیتیں لیکن 2002 میں انہوں نے ریٹائرمنٹ لے لی جس کے بعد وہ تقریبا ہر سال جرمنی جاکر تنظیم کے لئے فنڈ ریزنگ کرتیں۔


نثار ملک کے مطابق ڈاکٹر رتھ فاؤ کے خاندان کے لوگ جب تک زندہ تھے تو وہ جرمنی جاتی تھیں تاہم آخری مرتبہ وہ 2012 میں جرمنی گئیں جس کے بعد ڈاکٹروں نے ناساز طبیعت کے باعث انہیں سفر نہ کرنے کی ہدایت کی۔


ڈاکٹر رُتھ فاؤ اپنی زندگی کے 56 برس پاکستانیوں کی خدمت میں مصروف عمل رہیں، انہیں پاکستان کی’مدر ٹریسا‘ بھی کہا جاتا ہے۔


لاکھوں مریضوں کے چہروں پر مسکراہٹ بکھیرنے والی ڈاکٹر رتھ فاؤ 10 اگست 2017 کو طویل علالت کے بعد انتقال کر گئیں

افسوس ایسے لوگوں کو ہم مطلب نکل جانے کے بعد بھول جاتے ہیں 

ہمارے نصاب تعلیم میں ایسے ہیروز کے لئے کوئی جگہ نہیں جو ہماری زبوں حالی کا منہ بولتا ثبوت ہے


No comments:

Post a Comment