Sunday, March 5, 2023

دیمک ( ابن فاضل ) انتخاب شہباز ساحر

 


                                


   دیمک 



 چین سے ریل گاڑیوں کے ڈبے منگوائے گئے تھے. ان میں کچھ عجیب سی شکل کے لوہے کے ڈھلے ہوئے بیرنگ ہب bearing hub لگے تھے. کچھ عرصہ میں ان میں خرابی پیدا ہونا شروع ہوگئی. پانچ سو ہب کی ڈیمانڈ نکالی گئی.. ریلوے کا ایک ٹھیکیدار ہماری فیکٹری سے کچھ سامان تیار کرواتا تھا. اسے اندازہ ہوا کہ ہم وہ نسبتاً مشکل سا پرزہ تیار کر سکتے ہیں. وہ ان کی ڈرائنگز اور سیمپل لے کر آگیا. 


      ہم نے اس کے لوہے کا ٹسٹ کروایا، اس کی تیاری کیلئے مطلوبہ ضروری تمام آلات.    (.pattern and jig fixtures.)  کی قیمت کا حساب لگایا. اس میں اپنا منافع، اور غیر متوقع اخراجات وغیرہ ڈال کر چھ ہزار پانچ سو کی کوٹیشن ٹھیکیدار کو دی. ٹھیکیدار نے اپنی دانست کے مطابق اور اس پرزہ کی مناسبت سے بہت زیادہ قیمت کا ٹینڈر بھرا. 


       ٹینڈر والے دن اس کا فون آیا..بہت ہی خوش تھا. سر تیاری کرلیں ہم نے ٹینڈر جیت لیا ہے. بس آپ نے جلد از جلد بالکل زبردست مال بناکردینا ہے. ہم نے بھی ابتدائی تیاری شروع کردی. ایک ہفتہ گذر گیا. ٹھیکیدار نہیں آیا. اسے پوچھا.. غیرمناسب سا بہانہ بنایا. کچھ دن اور گذرے. دوبارہ معلوم کیا. پتہ چلا ٹینڈر منسوخ ہوگیا ہے. ہم نے اپنے تئیں منصوبہ دفن کردیا. 


        کچھ عرصہ گذرا. ایک اور ٹھیکیدار کسی کام سے ہمارے پاس آیا. باتوں میں بیرنگ ہب کا ذکر بھی ہوا. ہوش ربا کہانی سننے کو ملی. جس ہب کا نرخ ہم نے چھ ہزار پانچ سو دیا تھا، ہمارا خیال تھا ٹھیکیدار نے  نو، دس ہزار میں ٹینڈر جیتا ہوگا. مگر اس نے تیس ہزار میں لیا تھا. یعنی جو مال ہم صرف ساڑھے بتیس لاکھ میں بنا کردے رہے تھے. وہ ریلوے کو  ڈیڑھ کروڑ میں پڑرہا تھا. لیکن یہاں پر بھی بس نہیں کی گئی. 


      ٹینڈر میں دوسرا کم ترین نرخ پچاسی ہزار تھا. پچاسی ہزار والے نے  تیس ہزار والے سے کہا کہ بھائی جتنی رقم تمہیں محنت کرکے، سرمایہ لگا کر بچے گی اتنے ہم سے ویسے ہی لے لو اورمحکمہ کو لکھ دو کہ مجھ سے غلطی ہوگئی ہے میں اس قیمت پر سپلائی نہیں کرسکتا. اس نے وہی کیا. کچھ عرصہ بعد دوبارہ ٹینڈر ہوا پچاسی ہزار فی ہب میں آرڈر دیدیا گیا. جو مال ریلوے کو پچاس لاکھ میں مل سکتا تھا. سوا چار کروڑ میں خریدا گیا. سپلائی کرنے والے نے چین سے انتہائی سستے داموں منگوا کر فراہم کیے. 


     زر مبادلہ بھی باہر گیا. مقامی صنعت بھی محروم رہی. اور محکمہ کو بھی زبردست خسارہ. یہ صرف ایک پرزہ کی داستان ہے. یہی وہ دیمک ہے جو ہمارے اداروں کو اپنے پاؤں پر کھڑا نہیں ہونے دیتی. نہیں معلوم کون سی کیڑے مار دوا ہے جو  اس دیمک کو ختم کرسکتی ہے. 


                   تحریر  ( ابن فاضل)

No comments:

Post a Comment