غزل
"غزل"
بدن تو ایک حوالے کا ہے نشان میاں
فصیل_جسم سے آگے کئی جہان میاں
۔
خود آشنائی کی خواہش ہے نقطہء آغاز
بہت قدیم نہیں اپنی داستان میاں
۔
کسی مدار کی رنگینیوں میں شامل ہے
کشش کی دھار پہ چلتا یہ خاک دان میاں
۔
یہ کائنات بھی ذرہ دکھائی دے ہے جدھر
اسی جگہ ہے تخیل کی اب اڑان میاں
۔
نظر میں تاب کہاں اس کو دیکھنے کے لیے
یہ دل ہے جس کی تجلی کا راز دان میاں
۔
پڑی دراڑ کہاں اور کہاں لگے جالے
کبھی خبر ہی نہ لی چھوڑ کر مکان میاں
۔
چھپا ہے حسن تغافل کی اوٹ میں، لیکن
یہ احتیاط نکالے گی میری جان میاں
۔
دلوں کے ربط میں چالاکیاں نہیں چلتیں
یقین کر کے نہیں ہوتے بد گمان میاں
۔
بڑھا کے فاصلہ دیکھا تو دور سے آکاش
زمیں سے ملتا نظر آیا آسمان میاں
۔
احمد سبحانی آکاش
No comments:
Post a Comment