تحریر : جاوید ملک
پتوکی
پھولوں کا شہر پتوکی 1990 سے ضلع قصور کی تحصیل کا درجہ رکھتا ہے لیکن تحصیل کا درجہ حاصل ہونے سے پہلے یہ شہر تحصیل چونیاں اور ضلع لاہور کے دائرہ کار میں آتا تھا۔
اب یہ شہر لاہور سے 80 کلو میٹر پہ واقع ہے گرد و نواح کے دیگر شہروں کی طرح یہ شہر بھی تاریخی اہمیت کا حامل تصور کیا جاتا ہے ۔ " پتوکی " کے پس منظر میں اگر جھانک کر دیکھا جائے تو کئی صدیاں پہلے یہ ہندوؤں کے ایک دیوتا " پٹوان " سے منسوب تھا جوکسی زمانے میں اس شہر میں رہا کرتا تھا ۔ پتوکی پر بات کو آگے بڑھاتے ہوئے یہ بتانا بھی ضروری سمجھتا ہوں کہ پتوکی سے صرف آٹھ دس کلومیٹر جنوب میں ایک اور تاریخی قصباتی شہر کا نام کبھی " واں رادھا رام " ہوا کرتا تھا اور یہ نام بھی ہندو مذہب کی مقدس ہستیوں رادھا اور رام سے مشہور تھا جو کبھی یہاں رہا کرتے تھے یا ان کا یہاں کبھی قیام رہا تھا۔اسی طرح مشرق میں صرف 22 کلومیٹر کے فاصلے پر ہڑپہ٬ ٹیکسلا جیسے صدیوں پرانی تاریخ کے حامل شہر چونیاں بھی آباد ہے جس کے بارے میں کہا جاتا ہے وہ چھ مرتبہ تباہ ہوکر ساتویں مرتبہ اس وقت آباد ہوا جب یہاں اللہ کے نیک بندے اور ولی کامل حضرت پیر جہانیاں اور بابا متو شاہ جن کے مزارات آج بھی چونیاں شہر کے پرانے کھنڈرات اور ٹیلوں میں موجود ہے ۔
چونیاں شہر بھی ایک ہندو مہاراجہ کی بیٹی " چونی " سے منسوب تھا۔ یہ شہر برصغیر پاک و ہند کے عظیم دریا
" دریائے بیاس " کے مغربی کنارے پر آج بھی ایک بلند و بالا ٹیلے پر واقع ہے ۔
جو ایک جانب پتوکی ٬ چھانگا مانگا اور دوسری جانب الہ آباد ٬ گنگن پور٬
حجرہ شاہ مقیم اور شمال کی جانب قصور کے تاریخی شہر کے مضبوط حصار میں ہے ۔
اسی طرح اسی ہندو مہاراجہ کی دوسری بیٹی کنگن تھی جس کے نام پر " گنگن پور " کا قصباتی شہر آج بھی دریائے ستلج کے مغربی کنارے پر آباد نظر آتا ہے ۔اگر یہ کہاجائے تو غلط نہ ہوگا کہ وسطی پنجاب کا یہ عظیم خطہ کبھی ہندووں کے دیوتاﺅں کی آمجگاہ ہوا کرتا تھا ۔جس کے آثار قدیمہ آج بھی ان پرانی بستیوں اور شہروں میں جابجا بکھرے دکھائی دیتے ہیں ۔
کاروباری اعتبار سے " پتوکی "کا شمار صوبہ پنجاب کے اہم ترین شہروں میں ہوتا ہے ۔ یہ شہر لاہور ملتان شاہراہ پر واقع ہونے کی بنا پر تعلیمی٬ ثقافتی اور کاروباری اعتبار سے بھی اپنا منفرد مقام رکھتا ہے ۔بلکہ پاکستان میں سب سے زیادہ پھول اور پھل اسی سرزمین کی پیداوار دکھائی دیتے ہیں ۔ پتوکی سے جنوب کی جانب چند کلومیٹر کے فاصلے پر سہجووال کا چھوٹا سا ریلوے اسٹیشن آتا ہے یہ ریلوے اسٹیشن چاروں اطراف سے وسیع رقبے پر پھیلی ہوئی پھولوں کی بے حدو حساب نرسریوں اور پھلوں کے باغات کو اپنے دامن میں سموئے ہوئے ہیں ۔
13 لاکھ سے زیادہ انسانی آبادی کا یہ شہر صوفیائے کرام کے حوالے سے بھی منفرد اور اعلی مقام رکھتا ہے ۔ اس شہر اور گردو نواح کے قصبوں میں بے شمار روحانیت کے پیروکار ٬ ولی کامل بھی موجود ہیں جن کے مزارات بھی اس شہر کی روحانی رونق ہیں
لاہور سے پتوکی تک تقریبا 200 سے زائد فیکٹریاں اورکارخانے جی ٹی روڈ کے ارد گرد موجود ہیں جن میں بڑے بڑے نام شامل ہیں۔
پتوکی شہر شرح خواندگی کے اعتبار سے بھی اپنی منفرد پہچان آپ رکھتا ہے جہاں سکول ٬ کالجز اور دیگر تعلیمی اداروں کی کثیر تعداد ہے جن میں گورنمنٹ کالج پتوکی ٬ گورنمنٹ کالج برائے خواتین پتوکی ٬ گورنمنٹ کالج آف کامرس ٬ ووکیشنل انسٹیٹیوٹ پتوکی نمایاں ہیں جبکہ نجی تحویل میں قائم تعلیمی اداروں اور گورنمنٹ ہائی سکول ان کے علاوہ ہیں ۔
شہر سے گزرنے والی پرانی جی ٹی روڈ کے ارد گرد پھیلے ہوئے علاقوں تجارتی ادارے ٬ سکول کالجز اور گلی محلے شہر کے مرکزی حصہ قرار پاتے ہیں ۔پتوکی ریلوے اسٹیشن کو بھی یہاں کے قابل ذکر مقامات میں اہم مقام حاصل ہے لاہور سے کراچی جانے والی مین ریلوے لائن پر درجنوں ٹرینیں یہاں سے ہر روز گزرتی ہیں اور سینکڑوں مسافر وں کا یہاں آنا اور جانا معمول کی بات ہے ۔اس ریلوے اسٹیشن کے قریب ہی دو گہرے اور پختہ پانی کے تالاب نظر آتے ہیں جہاں سے کبھی ریلوے کے اسٹیم انجن رواں دواں رہنے کے لیے پانی حاصل کیا کرتے تھے لیکن جب سے اسٹیم انجن کو ختم کردیاگیاہے یہ تالاب اب آثار قدیمہ کا منظر پیش کرتے ہیں۔
تحصیل کا درجہ ملنے کے بعد انتظامی طور پر پتوکی سے پانچ سو پچھتر گاﺅں وابستہ ہوئے ہیں ۔
پتوکی شہر کے اگر شمالی مغربی اور جنوب مغربی علاقوں کا جائزہ لیا جائے تو دریائے راوی کے اس پار شرقپور ٬ جڑانوالہ ، ماموں کانجن اور کمالیہ کے شہر قطار در قطار آراستہ دکھائی دیتے ہیں جو رائے ونڈ سے شروع ہوکر چیچہ وطنی تک چلتے ہیں۔
No comments:
Post a Comment